امریکی شہر لاس اینجلس میں تارکین وطن کے احتجاجی مظاہروں اور بد امنی کے خلاف صدر ترمپ نے نیشنل گارڈ تعینات کرکے متعدد گرفتار کرلئے۔
لاس اینجلس میں امیگریشن حکام کے چھاپوں کے خلاف مظاہرین کا احتجاج تیسرے دن بھی جاری ہے، جہاں بدامنی میں شدت کے ساتھ ساتھ گاڑیاں نذر آتش کیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ اس دوران پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں امیگریشن حکام کے چھاپوں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ رات بھی جاری رہا، جہاں پولیس نے شہر کے مرکزی علاقوں میں احتجاج کو ختم کرانے کی کوشش کیں۔
اطلاعات کے مطابق شہر کے بعض علاقوں میں گاڑیوں کو جلا دیے جانے کے واقعات بھی پیش آئے، جبکہ قانون نافذ کرنے والے حکام کے زیر استعمال گاڑیوں پر پتھراؤ کے بعض واقعات بھی پیش آئے۔ حکام نے شہر کی بعض اہم شاہراہوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایل اے پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین ’’ڈاؤن ٹاؤن ایریا تک پہنچ گئے تھے، جہاں سے اب وہ باہر نکل گئے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ جمعے کے روز امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے وفاقی ایجنٹوں کے جانب سے متعدد چھاپوں کے دوران درجنوں افراد کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
گذشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ بائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے امریکی سڑکوں پر پیدا کردہ انارکی کو برداشت نہیں کریں گے۔ وہ اس کے خلاف مکمل صدارتی اختیارات استعمال کریں گے۔
اس سنیچر کو انھیں اپنی اس وارننگ کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملا جب لوگ کیلیفورنیا میں امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کے اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ تاہم لاس اینجلس پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاج زیادہ تر پرامن تھا۔
مقامی حکام نے کہا کہ وہ جھڑپوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے جو پرتشدد ہو گئی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں نے کہا کہ امیگریشن ایجنٹوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ زخمی ہو رہے تھے جبکہ مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ردعمل انتہائی سست تھا۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے اتوار کی صبح سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں لاس اینجلس پولیس کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہماری مدد کے لیے تبھی آئیں گے جب کسی افسر کو خطرہ ہو۔‘
لاس اینجلس پولیس کا کہنا تھا کہ ’صورتحال کے مطابق جلد از جلد کارروائی کی گئی۔ پولیس کو اطلاع ملنے کے 55 منٹ کے اندر ہی ہجوم کو منتشر کرنے کا کام شروع کردیا گیا۔‘
ٹرمپ نے گورنر گیون نیوزوم کے اعتراضات کے باوجود کیلیفورنیا کے نیشنل گارڈ کے 200 فوجیوں کو امن کی بحالی کے لیے تعینات کیا۔
وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے کہا کہ امریکی میرینز کو بھی تعیناتی کے لیے ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ امریکی سرزمین پر ڈیوٹی پر میرینز کا استعمال ایک نادر مثال ہوگی۔
اتوار کی صبح تک ٹرمپ نے اپنی فتح کا اعلان کرنا شروع کر دیا تھا اور امن بحال کرنے پر نیشنل گارڈ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ تاہم، نیشنل گارڈ کے سیکورٹی اہلکار ابھی تک پوری طرح نہیں پہنچے تھے۔
ٹرمپ نے جس تیزی کے ساتھ اس احتجاج پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ اس کے لیے پوری طرح تیار تھی۔
اس نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو پوری طرح تیار ہو گا۔ وائٹ ہاؤس اپنی جیت کو امن و امان کی واپسی اور قوانین کے جارحانہ نفاذ کے طور پر دیکھتا ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے اٹھائے گئے اقدام سے ان کے حامی پرجوش ہوں گے۔ یہ آزاد سیاسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے جو لوگوں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔
نعیم نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ 2020 میں مینیسوٹا کی ’بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک کے دوران ہونے والے مظاہروں کو بغیر کسی پابندی کے توسیع کی اجازت دی گئی تھی، لیکن نئی ٹرمپ انتظامیہ ایسے معاملات سے مختلف طریقے سے نمٹنے جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم 2020 والی صورتحال کو دوبارہ نہیں برداشت کریں گے۔
تاہم، ڈیموکریٹس نے کہا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے ریستورانوں اور دکانوں پر نقاب پوش اور فوجی لباس میں ملبوس سکیورٹی اہلکاروں کو بھیج کر شہریوں کو گرفتار کرنے کا اقدام اشتعال انگیز تھا۔ ان کے مطابق تربیت یافتہ فوجیوں کو تعینات کرنے کے لیے صدر جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کر رہے تھے اس کی ضرورت نہیں تھی۔
نیو جرسی کے سینیٹر کوری بکر نے کہا کہ ’جب اس طرح کی تعیناتی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا تو ایسا کرنے سے نہ صرف نسلوں کی روایت ٹوٹتی ہے بلکہ یہ ماحول کو مزید خراب کرتا ہے اور مزید اشتعال کا ذریعہ بنتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان میں سے بہت سے پرامن احتجاج اس لیے ہو رہے ہیں کہ امریکی صدر اپنی امیگریشن کی سماعت کے لیے آنے والے لوگوں کو گرفتار کر کے افراتفری اور انتشار پیدا کر رہے ہیں۔ ایسا کر کے یہ لوگ صرف قانون پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
امریکہ میں موسم گرما کے مظاہروں کی ایک طویل روایت ہے اور ابھی جون کا ابھی آغاز ہے۔ ٹرمپ کی دوسری مدت کے پانچ ماہ بعد کیلیفورنیا میں ہونے والا احتجاج ایک الگ تھلگ واقعہ ہے یا آنے والی ممکنہ طور پر بڑی سول تحریکوں کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔