پاکستان جنگی جرائم و انسانیت کیخلاف جرائم کا مرتکب ہے، کمال بلوچ کا "اے پی این” ٹی وی کوخصوصی انٹرویو

ایڈمن
ایڈمن
22 Min Read

بلوچ عوام پاکستان سے اپنی آزادی کیلئے کئی دہائیوں سے جد وجہد کررہے ہیں۔ بلوچ عوام شکایت کرتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستانی فوج اور اٹیلیجنس ایجنسیز کے ہاتھوں بے پناہ مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک جبر ی گمشدگی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بلوچ نوجوان پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر لاپتہ کئے جاتے ہیں تو وہ دوبارہ نظر نہیں آتے ہیں۔ وہ کہاں ہیں، ہم اس متعلق اور بلوچستان کی حقیقی صورتحال کو سمجنھے کےلئے بلوچستان کے اہم سیاسی رہنما بی ایس او او آزاد سابقہ چئیزمین کمال بلوچ آج ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ اُن سے ہم بلوچستان کی اصل صورتحال پر گفتگو کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے ہم یہ رپورٹ پیش کرتے ہیں جسے ہماری صحافی دوست نے ترتیب دی ہے۔[اینکر اے پی این]

Contents
ٹی وی رپورٹسوا ل :۔ آج ہمارے ایک خاص مہمان کمال بلوچ جو بلوچستان سے ہےاور بی ایس او آزاد کے سابقہ چئیرمین ہیں، کو پروگرام میں خوش آمدید کہتے ہیں۔اے پی این :۔ جی ہم نے بلوچستان کے متعلق بہت کچھ سنا ہے آپ ہمیں یہ بتائیں کہ بلوچستان میں کیا کچھ ہو رہا ہے ؟اے پی این :، آپ کیسے کہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے اس کی ذرا وضاحت کریں ،؟اے پی این :۔ اس لئے آپ لوگ پاکستان کو قبضہ گیر فوج کہتے ہیں؟اے پی ایں :۔ کچھ آواز سننے کو ملتاہے، کہتے ہیں بلوچستان انڈیا کے ساتھ شامل ہو نا چاہئے؟اے پی این ؛ِ۔آپ ناراض ہیں کہ ہندوستان مداخلت کیوں نہیں کرتی جس طرح بنگلہ دیش میں ہندوستان نے مداخلت کی تھی انکو آزادی دلا نے میں؟اے پی این؛۔ آپ کہتے ہیں ہندوستان کو بلوچستان کی آواز کو اجاگر کرنی چاہیئے۔ اس وقت پاکستان الزام لگا رہی ہے بلوچستان کی آزادی کے پیچھے ہندوستان ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟اے پی این :۔جبر ی گمشدگی بلوچستان میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نے دیکھا تھا کو ئٹہ میں جبر ی گمشد گی کے خلاف لو گوں نے بہت بڑی ریلی نکالی تھی۔ اس میں بہنیں اور مائیں رو رہی تھیں۔ اس کے بارے میں آپ ہمیں مزید بتائیں گے کتنے لوگ لاپتہ ہیں ،؟اے پی این :۔ ہم نے پڑھا تھا کچھ کرئمنل لوگ ہیں جن کو پاکستانی فوج نے چوٹ دے رکھی ہے اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟اے پی این:۔آپ کہتے ہیں پاکستان آپ لوگوں خوفزدہ کررہاہے۔ آپ خوفزدہ ہونگے نہیں اور یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کراچی کا جو واقعہ ہوا تھا یہ بجا ہے ؟اے پی این :۔ بلوچستان کا ایک بلوچ صحافی تھا سویڈن میں لا پتہ ہو ا تھا پھر انکی لاش ملی تھی آپ کیا کہتے ہیں کس کا ہا تھ ہے ؟اے پی این :۔ پاکستانی فوج اتنی تشد د بلوچستان میں کررہی ہے انٹر نیشنل انسانی حقوق کے ادارے کیا کررہے ہیں ؟اے پی این :۔ ھم دعا گو ہیں کہ آپ کے جتنے مسئلے ہیں وہ حل ہوں اپنی مقصد میں کامیاب رہیں۔

ٹی وی رپورٹ


”بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے ما لا مال ہے۔ بلوچ عوام اپنی آزادی کےلئے کئی دہائیوں سے پاکستان کے خلاف جد وجہد کررہی ہے بلو چ عوام پاکستانی قبضے کے خلاف ۱۹۴۸ سے جدوجہد کر رہے۔ ہیں۔ انہوں نے اس قبضہ کو کبھی قبول نہیں کیا ہے۔ وہ آزادی چاہتے ہیں۔ پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیز اس مطالبہ کو ختم کرنے کیلئے نہایت طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج غیر انسانی غیر آئینی طریقے سے بلوچوں کی آزادی کو روکنے کو شش کررہی ہے۔ بلوچوں کو جبری طور پر لا پتہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ خواتین سمیت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اُٹھائے گئے دوبارہ نظر نہیں آتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی لاش بھی نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے ان جرائم جبری گمشدگی میں تیزی آ رہی ہے۔ بہت سے افراد جو پاکستانی فوج کے ہاتھوں لا پتہ ہو چکے ہیں کیی فیملیز کوئٹہ میں اکھٹے ہو کر پاکستان کی اس غیر انسانی رویہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
حال ہی پاکستانی فو ج کے پالے ہو ئے ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں نے تر بت شہر میں ایک چار سالہ بچی برمش بلوچ کے گھر پر حملے کرتے ہیں اور جہاں برمش بلوچ کو زخمی ہوئے اور انکے والدہ کو قتل کرتے ہیں۔ ساتھ معلوم ہونے چاہئے بلوچستان میں گیس اور دیگر وسائل سے مالا مال ہیں ۔ بلوچستان کے نوے فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ پاکستانی کی ناانصافیوں اور ظلم و جبر سے لوگ تنگ آکر دہائیوں سےمسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان اسے غیر قانونی طریقوں اور طاقت سے ختم کرنا چاہتی ہے۔ حتیٰ کہ پاکستانی فوج بلوچستا ن کے رہائشی آبادیوں پر بمباری کرتی ہے۔ انہی جیسی بمبار منٹ میں پاکستان نے بلوچستان کے سب سے بڑے لیڈر نواب اکبر خان بگٹی کو قتل کیا۔ جو مزاحمت کے اہم رہنما مانے جاتے ہیں، یہی باتیں کر رہے ہیں کہ انڈیا بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو مدد کرے۔ ۲۰۱۶ کو انڈیا کے وزاعظم نریندرا مودی نے تاریخی مقام لعل قلعے سے خطاب میں بلوچوں کو سلام پیش کیا تھا۔ بلوچستان متعلق بات چیت کی تھی بلوچ رہنما یہ کہ رہے انڈیا بلوچستان آزادی کی حمایت کریں دنیا میں ہندوستان وبلوچ کی دوستی کے کئی پلیٹ فارم بنائے جائیں گے۔“

سوا ل :۔ آج ہمارے ایک خاص مہمان کمال بلوچ جو بلوچستان سے ہےاور بی ایس او آزاد کے سابقہ چئیرمین ہیں، کو پروگرام میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

چئیرمین کما ل بلوچ :۔ جی بہت مہربانی سر

اے پی این :۔ جی ہم نے بلوچستان کے متعلق بہت کچھ سنا ہے آپ ہمیں یہ بتائیں کہ بلوچستان میں کیا کچھ ہو رہا ہے ؟

کمال بلوچ :۔سب پہلے بلوچستان کی حالات حقیقی مسئلے کو سمجھنا چاہئے کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ بلوچستان اور پاکستان کا رشتہ کیا ہے۔ پاکستانی فوج نے بلوچستان پر قبضہ کیا ہے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک بلوچستان میں ظلم وستم کی انتہا ہو چکی ہے۔ اور آج بھی ظلم و جبر جاری ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج جبری گمشدگی اور قتل عام کرتی آرہی ہے۔ اس وقت دنیا میں جو وبا یعنی کرونا وائرس پایا جاتاہے، دنیا اس کر ونا کے خلاف لڑ رہی ہے لیکن پاکستانی فوج بلوچستان میں بلوچ عوام کے خلاف آپر یشن میں مصروف عمل ہے۔ بلوچوں کوجبری طور پر لاپتہ کررہی ہے۔ اس وقت ہز رواں کی تعداد میں بلوچ لا پتہ ہیں جو پاکستانی اذیت گاہوں میں بند ہیں۔ حتیٰ کہ اس وقت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین کو گرفتار کرکے انکو غائب کرنا پھر انکو ذہنی اور جسمانی تشدد کرکے رہا کیا جاتا ہے۔ یہ صور ت حال ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج کا جو رویہ ہے، وہ قبضہ گیر کا رویہ ہے۔ بلوچ اپنی آزادی کی جد وجہد کر رہی ہے۔ دنیا کے تما م قوانین بلوچ کو یہ حق دیتی ہیں کہ وہ اپنی حق کیلئےجد وجہد کریں۔ اس بات کی وضا حت ہو نی چاہئے، بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ بلوچستان پر پاکستان نے قبضہ کیا ہے۔

اے پی این :، آپ کیسے کہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے اس کی ذرا وضاحت کریں ،؟

چئیرمین کمال بلوچ :۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ اگر آپ تاریخ کو جاکر دیکھیں اور اُسے پڑھیں تو آپ تاریخ سے روشناس ہونگے۔جب برصغیر میں متحدہ ہندوستان وجود رکھتا تھا، اس وقت بلوچستان کی اپنی شاخت تھی۔ اس کے جمہوری ادارے تھے۔ اُس کے پا رلیمنٹ تھے، جسے ایوان زیریں اور ایو ان بالا کہتے تھے، جہاں سے لوگ جمہوری انداز میں لوگ عوام سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ کے حصے ہو جاتے تھے۔ جب متحدہ ہند وستان تقسیم ہو ا تھا، اس وقت یعنی ۱۴ اگست ۱۹۴۷کو جب پاکستان وجود میں آیا تو پاکستان کی وجو د آنے کے آٹھ مہینے کے بعد ۲۷ ما رچ ۱۹۴۸ کو پاکستان فوج فوجی قوت کے ساتھ بلوچستان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور بلوچستان پر قبضہ کرتے ہیں ۔اب اندازہ کریں کس طرح بلوچستان پاکستان کا حصہ ہو گا ؟ بلوچستان کی اپنی علیحدہ ریاست تھی۔ انکی اپنی ایک علیحد ہ حیثیت تھی۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کے سامنے سب کچھ عیان ہوگا۔ جب متحد ہ ہندوستان تقسیم ہو ا تھا اس پہلے آل انڈیا ریڈیو نے بلوچستان کی آزادی خبر نشر ہو ا تھا۔ اگر اس پس منظر دیکھنا چاہتے ہیں تو تاریخ کو پڑھیں۔ یہ ایک واضح تاریخ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان نے بلوچستان پر قبضے کیا ہے۔ اس قبضے کو ہم نے کبھی نہیں مانا ہے بلکہ پہلے دن سے بلوچوں نے اس قبضے کو نہیں مانا ہے بلکہ ہماری اپنی کلچر ہے ہماری تاریخ ہے۔

اے پی این :۔ اس لئے آپ لوگ پاکستان کو قبضہ گیر فوج کہتے ہیں؟

چیرمین کمال بلوچ :۔جی بالکل۔ جب کو ئی کسی اور ملک میں دوسرے کے جغرافیہ میں آکر قبضہ کرے تو اُسے آپ قبضہ گیر کہتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو بلوچ کی تاریخ پڑھنا چاہیئے۔ اس لئے ہمیں دنیا کے تما م قوانین Right of self determination کی حق دیتی ہے اگر آپ یو این کے چارٹر کو دیکھیں ہم یہی کہ رہے ہیں یہ حق ہمیں دیتی ہے ہم اپنی آزادی جد وجہد کریں۔ آل انڈیا ریڈیو میں بلوچستان کی آزادی کا اعلان تقسیم ہندوستان سے پہلا ہوتا ہے۔ یہ واضح تاریخ ہے۔ اس میں کو ئی شک و شبہ کا گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان نے قبضے کیا۔ پہلے دن سے ہم نے نہ مانا ہے نہ اب بھی مانتے ہیں۔

اے پی ایں :۔ کچھ آواز سننے کو ملتاہے، کہتے ہیں بلوچستان انڈیا کے ساتھ شامل ہو نا چاہئے؟

چیزمین کمال بلوچ :۔ نہیں نہیں بالکل نہیں۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ ہم اس وقت ہندوستان کو ایک اچھے ہمسایہ ملک وہ جمہوری ملک ہے، ہم اس طرح دیکھتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں ہے۔ ہماری توقعا ت بہت ہیں کہ وہ بلوچستان کے حوالے سے اپنی رائے رکھے۔ جس طرح انسانی حقو ق کے خلاف ورزی بنگلہ دیش میں ہواتھا، انکا انسانی فرض بنتاہے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہ بلوچستان کے حوالے سے ایک رائے رکھیں۔ میں ایک بات بتا نا چاہتا ہوں، جس طرح کشمیر میں کچھ بھی ہو رہاہے لیکن دنیا میں پاکستان بہت پروپیگنڈہ کررہی ہے۔ ہم آزادی کا دعویٰ کررہے ہیں۔ یہ بات ہمیں ہماری تاریخ اجازت دیتی ہے۔ ہم ہند وستان کو ایک اچھا ہمسایہ ملک مانتے ہیں۔ وہ ایک جمہو ری ملک ہے۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دنیا کو بتائے کہ بلوچستان میں کیا ہو رہاہے۔ انسانی حقوق کی پائمالی ہو رہی ہے۔ یہاں crime against humanity and war crime ہو رہی ہے لیکن ہم افسوس کرتے ہیں لیکن ایک جمہوری ملک ہونے باوجودوہ کیوں خاموش ہے۔ ان کے ہمسایہ ملک بلوچستان میں پاکستان جیسے دہشگرد ملک بلوچوں کے ساتھ کیا کچھ کررہی ہے۔ وہ بلوچستان میں دہشت گردی پھیلا رہی ہے۔ لوگوں کو اٹھا کر غائب کرتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ غائب ہیں۔ انیے ٹارچر سیلوں میں بند ہیں۔ انکی بنیاد ی حقوق نہیں مل رہی ہے۔

اے پی این ؛ِ۔آپ ناراض ہیں کہ ہندوستان مداخلت کیوں نہیں کرتی جس طرح بنگلہ دیش میں ہندوستان نے مداخلت کی تھی انکو آزادی دلا نے میں؟

چیزمین کمال بلوچ :۔ہم ہندوستان سے یہی تو قعات رکھتے ہیں۔ وہ دنیامیں بلوچستان میں ہو نے والی جبر کا داستان بیان کریں۔ بلوچستان میں جتنی بھی انسان حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے دنیا کے سامنے ذکر کریں کہ بلوچ عوام اپنی آزادی کی جدو جہد کررہی ہے۔ بلو چ عوام تو قعات رکھتی ہے۔ بلوچوں کی جہاں آواز نہیں پہنچتی دنیا میں یہ بتائے کہ بلوچستان میں کیا کچھ ہو رہاہے۔ بلوچوں پر جو تشدد ہو رہی یہاں دہشت گردی پاکستانی فوج کررہی ہے۔ دنیا اس کی نوٹس لیں۔ ہم کہتے ہیں انڈیا کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی نوٹس لینا چاہئے۔ یو این کو چاہئے کہ وہ بلوچستان میں peace keeping mission بھیج دیں کیونکہ پاکستان دنیا کےلئے ایک ناسور ہے اس ناسور کو ختم کرنے کےلئے بلوچ جد وجہد بر ائے آزادی کو مد د کر نی چاہئے ۔ بلوچ قربانی دیتی رہی ہے۔ انڈیا کو چاہئے وہ اپنی قومی اور انسانی فرض سمجھ کر اپنا کردار بلوچستان میں ادا کریں ۔۔

اے پی این؛۔ آپ کہتے ہیں ہندوستان کو بلوچستان کی آواز کو اجاگر کرنی چاہیئے۔ اس وقت پاکستان الزام لگا رہی ہے بلوچستان کی آزادی کے پیچھے ہندوستان ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟

چیزمین کمال بلوچ ؛۔ یہ بات تاریخ میں لکھی جاتی ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں ہند وستان نے انسانی حقو ق کے خلاف ورزی پر مد اخت کی تھی وہاں جاکر انکی مد د کی تھی، بلوچستان میں انسانی حقو ق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں، اجتماعی قبر یں برآمد ہو ئی ہیں، یہاں انسانی حقوق کی بنیادی سہولیات ہیں وہ تو دور کی بات ہے۔

اے پی این :۔جبر ی گمشدگی بلوچستان میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نے دیکھا تھا کو ئٹہ میں جبر ی گمشد گی کے خلاف لو گوں نے بہت بڑی ریلی نکالی تھی۔ اس میں بہنیں اور مائیں رو رہی تھیں۔ اس کے بارے میں آپ ہمیں مزید بتائیں گے کتنے لوگ لاپتہ ہیں ،؟

چیزمیں کمال بلوچ :۔ میں آپ کو یہ بتا تا ہوں اس وقت بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں۔ پو ری ۲۲ سال ہوچکے ہیں علی اصغر غائب ہیں ہمارے بی ایس او کے سابقہ چئیزمین زاھد بلوچ کو پانچ سال سے زیاد ہ ہو چکا ہے وہ غائب ہے ذاکر مجید کو دس سال سے زیادہ ہو چکاہےوہ غائب ہے۔ اب بلوچستان کی ایسی صورت حال ہے کہ اب خواتین اور بچووں کو اٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان میں ڈتیھ اسکو اڈزتشکیل دی گئی ہیں۔ پوری بلوچستان میں کے ہر جگہ اور ہر علا قہ میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی فوج تعنیات ہیں۔ کئی دیڈیو سوشل میڈیا میں شائع ہو چکے ہیں جہاں لوگوں اٹھاکر اپنے چھاونیوں میں لے جاتے ہیں یا انکو قتل کرتے ہیں۔ کل کا واقعہ ہے سلیمان حمل کی والدہ کو انکے بیٹیوں کے ساتھ فوج گرفتار کرکے غائب کیا۔ اس طرح لوگوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں طلبا، ڈاکٹر وکیل زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو فوج غائب کرتی ہے۔ کیونکہ یہ اپنی حق کی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنی کلچر کی بات کرتے ہیں۔ اپنی حقو ق کے متعلق جانتے ہیں۔ وہ اپنی تاریخ پڑھتے ہیں کیونکہ پاکستان کی کو ئی تاریخ نہیں ہے۔ اس لئے جب کوئی با شعور بلوچ دیکھتی ہے تو پاکستان کو تکلیف ہو تی ہے تو لوگوں کو لاپتہ کرتی ہے تو یہ crime against humanity and war crime دنیا کو بلوچستان کی طرف متوجہ ہونی چاہئے ۔

اے پی این :۔ ہم نے پڑھا تھا کچھ کرئمنل لوگ ہیں جن کو پاکستانی فوج نے چوٹ دے رکھی ہے اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

چئیرمین کمال بلوچ :۔ میں یہی بات بتا رہا تھا کہ تر بت ڈنّک ایک جگہ ہے ویسا پوری علاقہ میں فوج موجود ہے لیکن درمیان میں مسلح لوگ گھر پر حملے کرتے ہیں۔ برمش کو زخمی کر تے ہیں اور اس کےوالدہ کو شہید کرتے ہیں۔ انکو یہاں کے لوگ ڈایتھ اسکواڈ کہتے ہیں۔ تمپ میں اس طرح کا ایک واقع ہو ا تھا۔ مشکے میں کئی واقعات ہو ئے ہیں، مشکے میں ابھی تک کئی خواتین انیے اذیت گاہوں میں بند ہیں۔ اس طرح میں کراچی کا واقعہ بتارہا تھا کیونکہ وہ اس شعور کو ختم کرنے کوشش کررہے ہیں۔ وہ خوف پھیلانے کو شش کررہے ہیں تاکہ لوگ جد وجہد سے خوفزدہ ہو جائیں۔ ہم جانتے ہیں جس طرح پاکستان نے بنگلہ دیش میں کیا تھا وہ وہی سب کچھ بلوچستان میں کررہے ہیں۔ پاکستان نے ایک دہشت گردانہ رویہ اختیار کی ہے۔

اے پی این:۔آپ کہتے ہیں پاکستان آپ لوگوں خوفزدہ کررہاہے۔ آپ خوفزدہ ہونگے نہیں اور یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کراچی کا جو واقعہ ہوا تھا یہ بجا ہے ؟

چیرمین کمال بلوچ:۔جی بلکل۔ میں یہ سمجھتا ہوں جہاں کو ئی آپ کے زمین پر قبضہ کر یں یہ اُس پر فرض بنتی ہے وہ بقا کی خاطر دشمن کی سر مایہ دار ہیں انکو ختم کرنا چاہئے۔ ہمیں غلا م رکھا ہے، بلوچوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ جس طرح وہ بلوچستان میں آکر بلوچوں کا قتل کرتے ہیں بلوچوں کو غائب کررہے ہیں یہ سوال آپ سے ہے جب آپ کے گھر میں کوئی آپ پر تشد د کرے تو آپ کیا رد عمل کرتے ہیں ۔۔

اے پی این :۔ بلوچستان کا ایک بلوچ صحافی تھا سویڈن میں لا پتہ ہو ا تھا پھر انکی لاش ملی تھی آپ کیا کہتے ہیں کس کا ہا تھ ہے ؟

چئیرمین کمال بلوچ :۔جی، شک اُس طرف جاتا ہے۔ جس طرح سویڈن میں ساجدبلوچ لا پتہ ہوئے تھے اسی طرح راشد حسین دبئی سے غائب ہو ئے تھے جسے پھر پاکستان کے حوالے کیا گیا لیکن وہ ابھی تک غائب ہیں۔ یہ پاکستان کی سازش ہے کیونکہ وہ بلوچ ڈائسپو رہ کو خوفزدہ کر نا چاہتاہے ۔ یہ باشعور لوگ ہیں۔ خاص کر ساجد بلوچ اپنے اخبار میں بلوچستان کے متعلق لکھتے تھے۔ اور ڈرگ مافیا کے حوالے سے بھی لکھتے تھے۔ اس لئے خدشہ یہی ہوتا ہے جس طرح راشد حسین کو دبئی اٹھا کر پھر پاکستان کے حوالے کیا تھا جو تاحال لا پتہ ہیں۔ یہاں بھی خد شہ یہی ہے کہیں نہ کہیں انکے ہاتھ (یعنی پاکستان )ملے ہو ئے ہیں۔

اے پی این :۔ پاکستانی فوج اتنی تشد د بلوچستان میں کررہی ہے انٹر نیشنل انسانی حقوق کے ادارے کیا کررہے ہیں ؟

چیئرمین کمال بلوچ :۔ ہم یہی بات کررہے ہیں کہ بلوچستان میں اتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ہم وقتا فو قتا انکو لیٹر لکھ چکے ہیں۔ اپنے تقر یروں میں اور تحریر وں میں ذکر کر چکے ہیں کہ بلوچستان میں کیا کچھ ہو رہاہے لیکن وہ خاموش ہیں۔ جتنے بھی جبر ی طو ر گمشدہ لوگ ہیں انکے کیس ہیں۔ ہم نے دنیا کے انسانی حقوق کے اداروں میں فائل بھی بھیج دی ہے۔ جبر ی گمشدگی اور ”اٹھاؤ اور قتل کر و“ پر بلوچ نیشنل مو ومنٹ نے ایک کتاب لکھی ہے جو پو ری دنیا میں پہنچا دی ہے۔ بلوچستان میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے ادارے کیوں طرفداری کا مظاہر ہ کررہے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے خامو ش ہیں۔ ہم ایسے انسانی حقوق کے اداروں پر سوال کرتے ہیں وہ بلوچستان کے مسئلہ پر کیوں خاموش ہیں۔ بلوچستان میں peace keeping mission بھیج دیتے بلوچستان میں تاکہ اصل حقائق معلوم ہو سکیں کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج چائنا سمیت یہاں کیا کچھ کررہی ہے۔ میں بات اضافہ کرنا چاہتا ہوں ںکران میں جو سی پیک تعمیر ہو رہی ہے، یہاں جتنی بھی آبادی ہے، انکی پاکستانی فوج نے جبری طور پر نکالا ہے۔ اب آپ بتائیں اتنے مسئلے ہو تے ہیں۔۔ تو پھر بھی انسانی حقوق کے ادارے خاموش رہتے ہیں۔ ہم کیا کریں ہم سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ طرفدار ہیں یا پاکستان سے خوفزدہ ہیں۔ جتنے ہمسایہ ملک ہیں چاہے پاکستان یہاں دہشت گردی پھیلا تی رہی ہے۔

اے پی این :۔ ھم دعا گو ہیں کہ آپ کے جتنے مسئلے ہیں وہ حل ہوں اپنی مقصد میں کامیاب رہیں۔

چئیرمین کمال بلوچ :۔ آپ لوگوں کی بہت بہت مہربانی ۔

Share This Article
Leave a Comment