بلوچستان کے علاقے مستونگ میں کوہ چلتن کے دامن میں لکپاس کے مقام پر بی وائی سی رہنمائوں کی رہائی کے لئے سردار اختر مینگل کی قیادت میں بی این پی کا دھرنا گذشتہ 15 دنوں سے جاری ہے ۔
دھرنا شرکاکا کوئٹہ لانگ مارچ روکنے کے لئے حکومت بلوچستان کی جانب سے کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان کوئٹہ کراچی ہائی وے پر کھڑی کردی رکاوٹوں سے لوگوں کو سفر کے حوالےسے شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگرچہ کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان دشت کے علاقے کنڈ میسوری کے راستے گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہوگئی ہے لیکن ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو آمدورفت میں بہت زیادہ تاخیر ہورہی ہے۔
بلوچستان کے ضلع نوشکی سے آنے والے ایک شہری کے مطابق گزشتہ روز ٹریفک اتنی زیادہ تھی کہ انھیں ایک منٹ چلنے کے بعد کم از کم 10 منٹ رکنا پڑتا تھا۔
شہری کے مطابق اپنی گاڑی میں گزشتہ روز ضلع نوشکی سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب وہ شام کو ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس پہنچے تو کوئٹہ کراچی شاہراہ لک پاس ٹنل کے راستے بدستور بند تھی جس پر انھوں نے کوئٹہ پہنچنے کے لیے کنڈ میسوری کے راستے کا انتخاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دشت کے علاقے کنڈمیسوری کے راستے اگرچہ راستہ کھلا تھا لیکن اس پر ٹریفک بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے انھیں کوئٹہ پہنچنے میں بہت زیادہ تاخیر ہوگئی کیونکہ ایک منٹ چلنے کے بعد 10 منٹ تک ان کو رکنا پڑتا تھا۔
ان کے مطابق لک پاس سے کوئٹہ شہر تک مین شاہراہ کے زریعے پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ تک لگتا ہے لیکن متبادل راستے سے ٹریفک بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو پانچ گھنٹہ لگے۔
ضلع کوئٹہ اور ضلع مستونگ کے درمیان کوئٹہ کراچی کے درمیان مرکزی شاہراہ پر رکاوٹیں سرکاری حکام کی جانب سے اس دھرنے کی وجہ سے کھڑی کی گئی ہیں جو کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماوں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام 28 مارچ سے دیا جارہا ہے۔