امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے واشنگٹن ڈی سی، نیو یارک اور بوسٹن سمیت امریکہ کے کئی علاقوں میں جاری ہیں۔
بوسٹن میں احتجاج میں شامل ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ان کا ملک اس وقت ایک ’خوفناک‘ صورتحال میں ہے۔
’میں 82 برس سے اس ملک میں رہ رہی ہوں اور یہ ایک خوبصورت جگہ ہے۔‘
انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ اس ملک میں خرابی کی وجہ ہیں۔‘
واشنگٹن ڈی سی میں بھی اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ امریکی صدر اور ان کے مشیر ایلون مسک کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
شہر کی میٹرو لائن پر شدید رش ہے اور لوگ واشنگٹن مونومنٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پلے کارڈز ہیں جن پر ٹرمپ انتظامیہ اور سرکاری ملازمین کی برطرفی کے خلاف نعرے درج ہیں۔
یہاں فی الحال احتجاجی مظاہرین کا موڈ خوشگوار ہے، سپیکر پر ڈسکو میوزک چل رہا ہے اور احتجاجی مظاہرین کے چہروں پر ہنسی اور قہقہے نمایاں ہیں۔
اس علاقے کے اطراف میں پولیس اہلکار بھی تعینات ہیں لیکن ماحول پُرسکون ہے۔
صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے اعلان کے بعددنیا بھر سے امریکہ آنے والی درآمدات پر کم از کم 10 فیصد ٹیرف کا اطلاق ہو چکا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی سوشل میڈیا پر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ’یہ آسان نہیں ہوگا۔‘
ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کے بعد وال سٹریٹ پر کاروبار میں شدید مندی دیکھی گئی ہے لیکن امریکی صدر کا اب بھی پیغام یہی ہے: ’جمے رہیے۔‘
امریکی صدر کا اصرار ہے کہ ان کی اقتصادی حکمتِ عملی کے ذریعے ’تاریخی نتائج‘ سامنے آئیں گے اور ملازمتوں کے مواقع اور کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔
ابھی دیگر ممالک اور کاروباری دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کی ’نو پین، نو گین‘ پالیسی پر غور ہی کر رہی تھی کہ برطانیہ میں کینیڈا کے ہائی کمشنر نے امید کا اظہار کیا کہ شاید امریکہ میں اندرونی دباؤ کے سبب ڈونلڈ ٹرمپ اپنی روش تبدیل کرلیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ ’امریکہ کو درد محسوس کرنا ہوگا کیونکہ آخر میں امریکی عوام ہی اپنی حکومت کو بیوقوفی روکنے پر راضی کریں گے۔‘
ایسی نشانیاں تاحال نظر نہیں آئی ہیں جنھیں دیکھ کر کہا جا سکے کہ امریکی صدر اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں، لیکن وہ یہ ضرور کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے تجارتی شراکت داروں سے بات چیت کے لیے راضی ہیں۔
امریکہ میں متعدد پالیسیوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کی گئی تبدیلیوں کے خلاف احتجاج جاری ہیں۔ ان مظاہروں کا مقصد سرکاری ملازمین کی برطرفی اور تعلیمی بجٹ میں کی جانے والی کٹوتی سمیت دیگر معاملات پر احتجاج ریکارڈ کروانا ہے۔
لوگوں میں یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ نئے ٹیرف کے سبب ملک میں بھی مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔