بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے بعد لداخ کا دورہ کیا ہے جہاں انہیں بھارتی فوج کی جانب سے علاقے کی تازہ ترین صورتِ حال پر بریفنگ دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق بھارت کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل بپن راوت اور آرمی چیف منوج موکنڈ نراوانے بھی جمعے کو لداخ کے دورے کے موقع پر بھارتی وزیرِ اعظم کے ہمراہ تھے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ اعظم مودی نے لداخ میں ‘نمو’ کے مقام پر اگلے مورچوں پر فوجیوں سے خطاب بھی کیا۔
بھارتی کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے خبردار کیا کہ ان کے ملک کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم کو پوری قوت کے سااتھ خاک میں ملایا جائے گا۔
انہوں نے چین کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر لداخ کے کسی بھی حصے پر قبضہ جمانے کی کوشش کی جاتی ہے تو بھارتی مسلح افواج اسے اپنی پوری قوت کا استعمال کرتے ہوئے ناکام بنائے گی۔
ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے سینئر ایسو سی ایٹ اور نامور امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے کہا ہے کہ بیانئے اور سیاسی مقاصد کے اعتبار سے مودی کی لداخ کی تقریر ”خاصی زوردار، لیکن خوبی کے لحاظ سے کمزور تھی”۔
اپنی ٹوئیٹ میں، کوگلمین نے کہا کہ واضح طور پر مودی کے خطاب کا مقصدحوصلہ افزائی کرنا نہ کہ پالیسی مقاصد کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے ”ہمالیہ سے اونچے” محاورے کے استعمال کا حوالہ دیا، جو بقول ان کے، چین پاکستان بیانئے کا چربہ ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ توسیع پسندی کا زمانہ گزر چکا ہے۔ یہ ترقی کا دور ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ توسیع پسند افواج یا تو شکست سے دوچار ہوئی ہیں یا انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
بھارت کے وزیرِ اعظم کو گزشتہ ماہ لداخ کی وادی گلوان میں چین کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اندرونِ ملک تنقید کا سامنا ہے۔
جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں نے علاقے میں فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن کشیدگی ختم کرنے اور بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود دونوں ملک ایک دوسرے پر سرحدی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
بھارت کی اپوزیشن جماعتیں خصوصاً انڈین نیشنل کانگریس جھڑپ کے بعد سے وزیرِ اعظم مودی کی چین سے متعلق پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن رہنماو¿ں کا اصرار ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم چین کے ساتھ تنازع کے حقائق سامنے لائیں۔
نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارتی فوج نے لداخ میں چینی افواج کو بھرپور جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت دوستی نبھانے کے ساتھ ساتھ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول کشیدگی کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم کے فرنٹ لائن مورچوں کے اس دورے سے فوج کا مورال بہتر ہو گا۔
بھارتی وزیرِ اعظم نے دورے کے دوران اس اسپتال کا بھی دورہ کیا جہاں چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہونے والے بھارتی فوجی زیرِ علاج ہیں۔
یاد رہے کہ لداخ کا کل رقبہ 45 ہزار مربع میل یعنی ایک لاکھ 17 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے جنوب مشرق میں لداخ رینج، قراقرم رینج اور دریائے سندھ کے بالائی کے علاقے شامل ہیں۔
پاکستان کی جانب یہ گلگت بلتستان سے جا ملتا ہے۔ کارگل اور سیاچن اسی حصے میں واقع ہیں جسے دنیا کا بلندترین محاذ جنگ کہا جاتا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان 3500 کلو میٹر طویل سرحد کی مستقل حد بندی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ سرحدی حد بندی پر دونوں ملکوں کا الگ الگ موقف ہے۔ 1962 میں سرحدی تنازع پر دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے جب کہ رواں سال مئی سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔