بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے سکیورٹی ایشو کی بجائے سیاسی مسئلہ سمجھا جائے ورنہ یہ فوج اور پہاڑوں پر بیٹھے لوگوں کے درمیان حل ہو گا۔
یہ خصوصی انٹرویوانہوں نے بلوچستان میں اپنے آبائی گاؤں وڈھ سے کوئٹہ تک مارچ کا آغاز کرنے سے چند روز قبل کراچی میں بی بی سی اُردو کے ریا ض سہیل کو دیا تھا۔
اختر مینگل کا مزید کہنا تھا کہ انھیں پاکستان کے پارلیمانی نظام میں یکسانیت نظر نہیں آتی۔ ’20 سال پہلے کے پارلیمانی نظام اور موجودہ نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے، موجودہ پارلیمانی نظام میں مجھے کوئی مثبت تبدیلیاں نظر نہیں آتیں، اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ پارلیمانی سیاست میں کوئی گنجائش باقی ہے۔‘
بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا بلوچستان کی سیاسی قیادت نے ہر طرح کوشش کی کہ وہ ایک پُل کا کردار ادا کریں، پہاڑوں پر موجود نوجوانوں کو بھی سمجھائیں اور ریاست، ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھائیں۔ ’لیکن اس کے جواب میں بلوچ سیاسی قیادت کو غداری کے الزامات لگا کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔‘
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ انھوں نے پارلیمان میں اپنا نکتہ نظر رکھا اور بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر کی داستانیں سنائیں۔ ’(اس پر) اسمبلیوں میں کئی لوگوں نے ڈیسک بجائے، کچھ نے آنسو بہائے اور کچھ نے ہمارا مذاق اُڑایا۔ مگر اب قیادت بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار حکومتیں اور ریاستی ادارے بشمول عدلیہ، فوج اور خفیہ ادارے ہیں جن کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں پارلیمنٹ بھی بڑی ذمہ دار ہے کیونکہ یہ مسئلہ ہم نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ کچھ نہ نکلا۔‘
گذشتہ دنوں بولان میں بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنائے جانے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اختر مینگل نے لکھا تھا کہ ’بلوچستان آپ کے اور ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔۔۔‘
جب انٹرویو کے دوران اُن سے پوچھا گیا کہ اُن کے اس دعوے کا مطلب کیا ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے کئی بار پارلیمان میں اور اعلیٰ سطحی میٹنگز میں کہا کہ ’خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ ضلع لسبیلہ میں ایف سی کے قلعے پر حملہ ہوتا ہے، ایک ہی دن میں 8 اضلاع میں ایک ہی وقت میں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی ایسا دن نہیں، کوئی ایسا ضلع نہیں جہاں پر اس طرح کے واقعات رونما نہ ہو رہے ہوں۔ حالیہ دنوں میں جعفر ایکپسریس کا واقعہ ہوا جس میں ساڑھے چار سو کے قریب مسافروں، جن میں فوجی بھی شامل تھے، کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ واقعات اور یہ حالات اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بلوچستان ہاتھ سے نکل چکا ہے۔‘
بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی کارروائیوں کی پس پردہ وجوہات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اِس کی ایک وجہ عوامی سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانا بھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ بلوچستان کی عوام کی 74 برسوں پر محیط فرسٹریشن اور مایوسی کا نتیجہ ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ’ہر آنے والے حکمران نے لوگوں کو صرف طفل تسلیاں دیں۔ مگر اب زمانہ بدل چکا ہے۔ آج پہاڑوں پر جو نوجوان موجود ہیں وہ کوئی قبائلی لوگ نہیں ہیں۔ آج جو نوجوان ہیں وہ کراچی یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی اور پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلیم یافتہ ہے، اِن نوجوانوں کی آوازیں سننے کے بجائے آپ نے اُن کو اٹھانا شروع کر دیا، اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا شروع کر دیں۔ اُن کو جو داغ دیے گئے ہیں اب وہ اِس فرسٹریشن کو وہ نکالیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سیاسی طور پر آپ لوگوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں۔ یا تو اُن کے کاغذات مسترد کر دیے جاتے ہیں یا اُن کے نتائج کو بلکل تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہی وہ حالات ہے جس کی وجہ سے ان میں تیزی آ رہی ہے۔‘
اپنے استعفی سے متعلق بات کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ مستعفی ہو چکے ہیں مگر سپیکر آفس نے ابھی ان کے استعفے کو قبول نہیں کیا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پارلیمان میں بلوچستان کے مسائل پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
’اسمبلی کا پہلا دن تھا اور جب میں نے تقریر کی تو ڈپٹی سپیکر مجھے بولنے نہیں دے رہے تھے۔ میڈیا بلیک آؤٹ ہو گیا اور یہاں تک کہ میں نے اپنی اُس تقریر کی سی ڈی مانگی تو بتایا گیا کہ اِس کی اجازت نہیں ہے۔ ایک تو آپ کو بولنے نہیں دیتے اور اگر مشکل سے آپ کو ٹائم مل ہی جائے تو میڈیا پر بلیک آؤٹ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور میرے اس فیصلے کا حمایت ناصرف میرے حلقے کے عوام نے کی بلکہ بلوچستان کا وہ طبقہ جو مایوس ہو چکا ہےاس نے بھی کی۔‘
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مقبولیت کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جو قوم پرستی کی سیاست تھی وہ پاکستان کی پارلیمانی نظام کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد تھی مگر آج کا نوجوان کہتا ہے کہ یہ وقت کا ضیاع ہے۔ ’آج نوجوان کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا وقت برباد کیا اور ہمیں تباہ کیا۔‘
’آج کا نوجوان کہتا ہے کہ آئین نہ تو اس پارلیمنٹ کو بچا سکا اور نہ ہی اپنے آپ کو۔ آپ لوگوں نے اپنا بھی وقت ضائع کیا اور ہمارا بھی۔ اگر آج کا نوجوان اس سطح تک پہنچا ہوا ہے تو اس میں سب سے بڑا کردار اور ذمہ داری ریاستی اداروں کی ہے۔‘
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بلوچستان کے مسائل تو حل نہیں ہوئے مگر پہلے جو ’خیرات‘ ملتی میں صرف اس میں کچھ اضافہ کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان سے متعلق ہونے والے فیصلوں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی، میں بلوچستان کی مرضی و منشا کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
بولان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس میں اپنی عدم شمولیت پر بات کرتے ہوئے اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ انھوں ذمہ داران کی طرف سے کوئی دعوت نامہ نہیں ملا تھا۔
انھوں نے کہا کہ عموماً اس طرح کے اجلاسوں میں ریاستی ادارے اپنا ذہن بنا کر آتے ہیں اور اپنے فیصلوں کی توثیق کے لیے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا سہارا لیتے ہیں، اِن فیصلوں کا کریڈٹ اپنے لیے رکھتے ہیں لیکن اس میں جو جگ ہنسائی ہوتی ہے وہ سیاست دانوں کے حصے میں دے دیتے ہیں۔
بلوچستان میں ممکنہ آپریشن سے متعلق چہ میگوئیوں پر بات کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’روزِ اول سے دیکھ لیں، آپریشن کب نہیں ہوا۔ 1948 کا آپریشن، 1950 کا آپریشن، 60 کا آپریشن، 70 کا آپریشن اور پھر جنرل مشرف کا آپریشن۔ کیا جنرل مشرف کے دور میں جو آپریشن شروع ہوا تھا اس کے خاتمے کا کسی نے اعلان کیا ہے؟ آپریشن تو چلتا آ رہا ہے، بس اِس کی شدت میں کبھی تیزی تو کبھی کمی آ جاتی ہے۔ لیکن کیا ان آپریشنوں سے مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں؟ بلکل نہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان تمام آپریشنز کے نتائج ہیں جو ہم بھگت رہے ہیں۔‘
پاکستان میں حکام کے مطابق بلوچستان میں عسکریت پسندی کی کارروائیوں میں انڈیا اور افغانستان بھی ملوث ہیں۔ اس سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے استفسار کیا کہ ’کیا پاکستان نے دوسروں کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی؟ افغانستان میں روزہ اول سے پاکستان مداخلت نہیں کرتا رہا؟ پھر چاہے کشمیر ہو یا سکھوں کی خالصتان کی تحریک۔ جب آپ مداخلت کریں گے تو دوسروں کو خود آپ یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ مداخلت کریں۔‘
’اگر آپ بلوچستان کے لوگوں کو جائز حقوق دے دیتے تو آج وہ کسی کی طرف نہ دیکھتے، نہ ہندوستان کی طرف اور نہ ہی افغانستان یا امریکہ کی طرف۔‘
بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدروں کی ہلاکت کے واقعات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ اس نوعیت کے واقعات کی مذمت کرتے آئے ہیں اور یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِن پنجابی مزدوروں کے قتل سے مسئلہ حل نہیں ہو گا اور نہ ہی مسائل میں کمی آئے گی، ’لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ نوبت آئی کیوں ہے؟‘