بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام کوئٹہ سریاب جامعہ بلوچستان کے سامنے بیبگر بلوچ، انکے بھائی اور دیگر جبری گمشدہ و گرفتار خواتین کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ابتدائی طور پر پولیس نے مظاہرین کو احتجاج سے روکنے کی کوشش کی مگر عوامی دباؤ کے پیش نظر پولیس کو پسپا ہونا پڑا اور مظاہرہ کیا گیا۔
ریاست نے انٹر نیٹ کو بھی معطل کردیا تاکہ احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنایا جاسکے لیکن لوگوں کی بڑی تعداد مظاہرے میں شریک ہوگئی اور جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے ریاستی جرائم کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مطالبہ اس ملک و آئین کے تحت تھا لیکن اس ملک کے آئین و قانون کو فوجی جیب میں ڈالے گھومتے ہیں۔ آج ہماری جنگ صرف فورسز سے نہیں بلکہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی ہے کیونکہ وہ ان فورسز کے سب سے بڑے آلہ کار ہیں، یہی ادارے جبری لاپتہ افراد کو مفرور قرار دیتے ہیں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا یقین کریں بلوچ آپ کے بیانیئے سے بہت دور جاچکی ہے۔ گذشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان پر قوت آزمائی کررہے ہیں۔
اس سے قبل بی وائی سی کا کہنا تھا کہ مظاہرے کے لئے جب کارکنان وہاں پہنچے تو پولیس کی بھاری نفری پہلے سے موجود تھی اور مظاہرین کو ہراساں کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیاتھاکہ پولیس اور مقامی انتظامیہ بی وائی سی کے پرامن مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گی۔
واضع رہے کہ گزشتہ شب بی وائی سی کے رہنما بیبگر بلوچ اور ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر حمل بلوچ کو کوئٹہ سریاب سے تقریباً پانچ بجے سی ٹی ڈی نے اغواء کر کے لاپتہ کر دیا تھا۔
اسی طرح گزشتہ شب کوئٹہ سول اسپتال میں مسنگ پرسنز کے لواحقین جو سیکیورٹی اداروں کی جانب سے لائی گئی لاشوں کی شناخت کے لیے موجود تھے، انہیں پہلے تو میتیں دی گئیں، مگر جب وہ اپنے پیاروں کی میتیں لے جا رہے تھے، تو پولیس اور مقامی انتظامیہ نے ان پر حملہ کر دیا اور کچھ لواحقین کو گرفتار کر لیا۔
ان واقعات کے خلاف بی وائی سی نے آج کوئٹہ سریاب میں سہ پہر 3 بجے احتجاج کی کال دی تھی۔
بی وائی سی کا کہنا تھا کہ وہ واضح کرتا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے پرامن آواز اٹھاتے رہیں گے، اور اگر ہمارے کارکنوں کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ اور ریاستی اداروں پر ہوگی۔