بلوچ یکجہتی کمیٹی جھالاوان ریجن کی جانب سے شاہ جان بلوچ کے قتل، ناصر کریم بلوچ پر فائرنگ اور چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے 11 سال مکمل ہونے کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی، جو بعد ازاں ایک بڑے جلسے کی شکل اختیار کر گئی۔
ریلی میں بڑی تعداد میں مظاہرین شریک تھے، جنہوں نے نال کے مختلف راستوں پر مارچ کیا اور جبری گمشدگیوں اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
بعد ازاں یہ ریلی ایک جلسے میں تبدیل ہو گئی، جہاں مختلف مقررین نے خطاب کیا۔
احتجاجی جلسے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی قیادت، بشمول ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، شاہ جی بلوچ اور سمی دین بلوچ نے خطاب کیا۔
عوام کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاکہ زندہ قوموں کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، آج ہماری سرزمین درندوں کے ہاتھ میں ہے اور بلوچ فرزندوں کو بے دردی سے مارا جارہا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ ہماری مائیں سالوں سے اپنے لاپتہ بچوں کے انتظار میں آنسو بہا رہے ہیں لیکن وہ منہ سے ایک اف نہیں نکلتے ، یہ درد اور تکلیفیں ہمارے لوگ برداشت کررہے ہیں ، بلوچ کا جدوجہد انصاف کے لئے ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم کسی زمین پر قابض نہیں جو باہر سے آکر ان ماؤں سے کے بچے چھین لیتے ہیں میں اس جبر کے خلاف ہوں
انہوں نے کہاکہ چیئرمین زائد گیارہ سالوں سے بلوچ ہونے کا سزا کاٹ رہا ہے، بلوچ قوم پر ریاستی جبر کا مقابلہ ہمیں متحد ہوکر کرنا پڑے گا ۔ آج ہزاروں بلوچ خواتین آدھے بیوہ کی زندگی گزر رہے ہیں ۔ غلامی میں زندگی دردناک ہوتا ہے آج باہر سے کوئی آکر ہمارے لوگوں ماؤں بہنوں کے سامنے مار کر جاتا ہے ۔ اور پھر اس جبر کے خلاف تمھیں بولنے کا بھی اختیار نہیں دیتا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ ہم اس ریاست سے رحم کہ امید نہیں کرتے آج وہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچ کے گھر گھر میں فوجی آپریشن کرو ، ریاست بلوچ قوم کو مٹانے پر تیاری کررہا ہے ۔ جب تک بلوچ متحد ہوکر غلامی کے لعنت کے خلاف جدوجھد نہیں کرے گی اسی طرح مارتے رہینگے ۔
مقررین نے نال میں پیش آنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور حکومت و متعلقہ اداروں سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے واضح کیا کہ بلوچ عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا ان کا بنیادی حق ہے اور اگر ان مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو احتجاجی تحریک مزید وسعت اختیار کر سکتی ہے۔
جلسے میں شریک افراد نے حکومتی خاموشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ بلوچ حقوق کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔