انڈیا نے ٹِک ٹاک سمیت 59 چینی موبائل ایپس پر پابندی عائد کردی

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

انڈیا کی حکومت نے نوجوانوں میں مقبول ٹِک ٹاک سمیت 59 چینی موبائل ایپس پر پابندی عائد کر دی ہے۔

حکومت نے ان چینی ایپس پر پابندی لگاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انڈیا کے اقتدار اعلیٰ اور اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب انڈیا اور چین کے درمیان لداخ خطے میں رواں ماہ کے وسط میں ایک خونریز جھڑپ میں بیس انڈین فوجی مارے گئے تھے۔

انڈیا کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے پیر کی شام ایک حکم نامے کے ذریعے ٹک ٹاک، شیئر اِٹ، کلب فیکٹری، یو سی براو¿زر، وی چیٹ اور بیگ لائیو سمیت 59 چینی ایپس پر فوری طور پر بابندی لگا دی ہے۔

وزارت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ‘ملک کے سوا ارب شہریوں کے ڈیٹا کے تحفظ کے بارے میں پہلے سے تشویش ظاہر کی جا رہی تھی لیکن اب ڈیٹا کے غلط استعمال کے بارے میں کئی شکایات مل رہی تھیں۔ اب یہ محسوس کیا جانے لگا تھا کہ یہ ایپس انڈیا کی سالمیت اور اقتدار اعلی، ریاست کی سلامتی اور امن وامان کے لیے خطرہ ہیں۔’

چین سے موجودہ سرحدی ٹکراو¿ کے درمیان یہ انڈیا کی جانب سے باضابطہ طور پر چین کے خلاف ٹیکنالوجی اور معیشت پر پہلا بڑا وار ہے۔ کشیدگی کے بعد انڈیا میں چین کی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ اس مہم کو حکومت کی بلاواسطہ حمایت حاصل ہے لیکن چینی ایپس پر پابندی انڈیا کی جانب سے سرکاری طور پر چین کے خلاف پہلا بڑا قدم ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں علی بابا، ٹینسینٹ، ٹی آر کیپیٹل اور ہل ہاو¿س جیسی بڑی چینی کمپنیوں نے انڈیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ملک کے بہت سے سرمایہ کاروں اور اقتصادی ماہرین کا کا کہنا ہے کہ انڈیا کی حکومت نے اگر چینی کمپنیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو اس سے چین سے زیادہ انڈیا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

انڈیا کی حکومت نے چینی موبائل ایپس پر پابندی لگانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب مشرقی لداخ میں پینگونگ جھیل کے نزدیک ایل اے سی کے انڈین خطے میں منگل کی صبح دونوں ملکوں کی فوج کے اعلی اہلکار بات چیت کریں گے۔ یہ بات چیت چوشل کے مقام پر ہو رہی ہے۔ اس میں دونوں جانب سے لفٹیننٹ جنرل کی سطح کے اہکار بات چیت کریں گے۔ دونوں ملکوں کے فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے یہ بات چیت جون کے اوائل سے تیسری بار ہو رہی ہے۔

15 جون کی شب وادی گلوان میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان خونریز جھڑپ ہوئی تھی۔ اس میں انڈیا کے 20 فوجی ہلاک اور 70 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ چین نے اپنے زخمی یا ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد نہیں بتائی ہے۔

اس ٹکراو¿ کے بعد لداخ کے سرحدی خطے میں فوجی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ دونوں جانب فوج کی تعیناتی میں اضافے کی خبر مل رہی ہے۔ چین اور انڈیا نے اس خطے میں صحافیوں کے جانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ انڈیا میں حکام نے صحافیوں کو لداخ کے علاقائی دارالحکومت لیہہ سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ خبریں حاصل کرنے کا واحد ذریعہ فوج اور حکومتی اہلکار ہیں۔

چین اور انڈیا کے اس سرحدی تنازع کے درمیان مرکز کے زیر انتطام جموں و کشمیر کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے دو احکامات سے فضا میں گھبراہٹ اور تشویش کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

ان احکامات میں تیل کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایل پی جی سلنڈر کا دو مہینے کا ذخیرہ کر لیں۔

ایک دوسرے حکم میں گاندربل کے سینئر پولیس اہلکار نے مڈل اور ہائی سکول سمیت 16 تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو سکوریٹی فورسز کے لیے خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ بعد میں حکام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تیاریاں آئندہ مہینے شروع ہونے والی شری امرناتھ یاترا کی تیاریوں کے سلسے میں کی جا رہی ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ ان اقدامات کو انڈیا اور چین کی بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment