برطانیہ میں کام کرنے والے ایک انسانی حقوق کے ادارے نے الزام عائد کیا ہے کہ شامی سکیورٹی فورسز نے ملک کی اقلیتی علوی گروپ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کا قتل عام کیا ہے۔
جنگ کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے سریئن اوبزویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ جمعے اور سنیچر کو علوی کمیونٹی کے خلاف قتل عام کے 30 واقعات میں 745 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ادھر شام کی عبوری حکومت کے سربراہ احمد الشرع نے اتوار کی صبح دمشق کی ایک مسجد میں اپنے ایک وعظ میں ’قومی وحدت اور امن عامہ کو برقرار رکھنے‘ پر زور دیا ہے۔
انھوں نے شام کے ساحل پر جمعرات کو شروع ہونے والی جھڑپوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ متوقع چیلنجز ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں ہر ممکن حد تک قومی وحدت اور شہری امن کا تحفظ کرنا چاہیے۔‘
اطلاعات کے مطابق اس علاقے میں سینکڑوں لوگ اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں شام کے معزول صدر بشاالاسد رہتے تھے جو خود بھی علوی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
ایس او ایچ آر کے مطابق گذشتہ دو دنوں میں 1000 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں جو کہ دسمبر میں یہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سب سے سنگین تشدد کا واقعہ ہے۔
ہلاک ہونے والے افراد میں سابق حکومت کے درجنوں فوجی اور بشارالاسد کے وفادار سمجھے جانے والے گن مین بھی شامل ہیں، جنھیں جھڑپوں کے بعد جمعرات سے لازقیہ اور طرطوس صوبوں میں قید رکھا گیا تھا۔
ایس او ایچ آر کی رپورٹ کے مطابق پرتشدد واقعات میں شامی حکومت کے 125 ارکان جبکہ بشارالاسد کے 148 حامی مارے گئے ہیں۔
علوی کمیونٹی کو اہل تشیع کا ہی ایک فرقہ سمجھا جاتا ہے اور ان کی سنی اکثریتی شام میں آبادی تقریباً دس فیصد بنتی ہے۔
شام کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے حکومتی خبر رساں ادارے ثنا نیوز کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز پر اچانک کیے جانے والے حملوں کے بعد اس علاقے کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
شہر کے سماجی کارکن نے جمعے کو بی بی سی کو بتایا کہ ان حملوں کے بعد علوی کمیونٹی کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے، جس کے بعد سینکڑوں لوگ متاثرہ علاقوں سے اپنے گھر چھوڑ کر نکل گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان شہریوں کی بڑی تعداد نے لازقیہ کے علاقے حميميم کے روسی اڈے پر پناہ لے لی۔
روئٹرز کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس روسی فوجی اڈے کے باہر لوگ پناہ حاصل کرنے کے لیے نعرے لگا رہے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق درجنوں خاندان شام چھوڑ کر پڑوسی ملک لبنان فرار ہو گئے ہیں۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے گیئر پیڈرسن کا کہنا ہے کہ انھیں شام کے ساحلی علاقوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی پریشان کن خبروں پر تشویش ہے۔
انھوں نے فریقین سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں کے باز رہیں جس سے ملک عدم استحکام کی طرف جا سکتا ہے اور یہ تشدد ملک میں نئی مخلوط حکومت کی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔