افغانستان میں طالبان حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت انصار اللہ (تاجکستانی طالبان) نے افغانستان میں تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں اور انھیں القاعدہ نیٹ ورک تربیت دے رہا ہے۔
رکن ممالک کی معلومات کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں ٹی ٹی پی، القاعدہ اور انصار اللہ کے علاوہ افغانستان میں داعش، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ/ ترکستان اسلامک پارٹی، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور دیگر غیر ملکی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
تاہم طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’بعض ممالک اور انٹیلی جنس حلقوں‘ کی جانب سے بے بنیاد ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔
سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تربیتی مراکز ان سے الگ ہیں جہاں القاعدہ پہلے کام کرتی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور جماعت انصار اللہ کے تربیتی مراکز خوست، کنڑ، ننگرہار، پکتیکا اور تخار میں واقع ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے افغانستان میں سرگرم غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے اور اب وہ 14 صوبوں میں موجود ہے۔
تنظیم کی سابقہ رپورٹ میں افغانستان کے 12 صوبوں میں القاعدہ سے وابستہ مراکز کی موجودگی کا ذکر کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان تحریک نے پکتیکا کے کنڑ، ننگرہار، خوست اور برمل میں نئے تربیتی مراکز کھولے ہیں اور افغان طالبان سمیت عسکریت پسندوں کی بھرتی میں اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جون 2023 سے، القاعدہ ’صوبہ کنڑ میں تربیتی مراکز میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو خودکش حملوں اور نظریاتی مسائل کی تعلیم دے رہی ہے۔‘
سلامتی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب سے یہ رپورٹ تیار ہوئی ہے، افغانستان اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد 600 سے تجاوز کر گئی ہے۔
رپورٹ میں پاکستانی طالبان تحریک کے لیے افغان طالبان کی حمایت کا بھی ذکر کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما نور ولی محسود ہر ماہ افغان طالبان سے 30 لاکھ افغانی (43 ہزار ڈالر) وصول کرتے ہیں۔
ماضی میں بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے تاہم گروپ اور طالبان حکومت دونوں نے اس کی تردید کی ہے۔
پاکستانی طالبان تحریک بین الاقوامی افواج اور افغانستان میں سابقہ حکومت کے خلاف لڑائی میں افغان طالبان کی قریبی اتحادی رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ گروپ ٹی ٹی پی، جماعت انصار اللہ، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور ترکستان اسلامک پارٹی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے افغانستان بھر میں القاعدہ نیٹ ورک کے ارکان کو تربیتی مراکز اور محفوظ ماحول فراہم کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے نچلے درجے کے ارکان کابل کے مختلف علاقوں بشمول شہر نو، قلعہ فتح اللہ اور وزیر اکبر خان میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں، جب کہ ان کے رہنما کابل سے باہر کنڑ، غزنی، لوگر، میدان وردک اور بلغلی، سرائے پل جیسے دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔
افغانستان کو داعش خراسان کا علاقائی مرکز بھی کہا جاتا رہا ہے اور کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت اس گروپ کے عسکریت پسندوں کے اثر و رسوخ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
سلامتی کونسل کی رپورٹ میں طالبان حکومت کے وزیر برائے پناہ گزیں خلیل الرحمان حقانی پر خودکش حملے کا بھی ذکر کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
غور طلب ہے کہ اس گروپ نے گذشتہ ہفتے قندوز شہر میں نیو کابل بینک اور دارالحکومت کابل میں شہری ترقی کی وزارت کے قریب دو دیگر خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کسی گروپ کا کوئی مرکز نہیں ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ رپورٹ ’کچھ مخالف جماعتوں‘ کے پروپیگنڈے پر مبنی ہے جو افغانستان کے خلاف ’سازشوں میں مصروف‘ ہیں اور رائے عامہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انھوں نے اسے افغانستان کی صورتحال کا منفی جائزہ قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا نام افغانستان کے خلاف غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ’اسلامی امارت [طالبان حکومت]، اپنے وعدوں کی بنیاد پر، کسی بھی غیر ملکی گروپ کو افغانستان میں سرگرمیوں، رابطہ کاری یا تربیتی مراکز کی اجازت نہیں دیتی۔‘