بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سوشل میڈیاپلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ ،میں کہا ہے کہ بلوچ جبری گمشدگیوں پر عالمی برادری کی خاموشی دل ہلاک دینے والی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 25 جنوری کو بلوچ نسل کشی یادگاری دن کے طور پر منایا گیا۔ اس موقع پر بلوچستان بھر سے ریاستی جبر سے متاثرہ افراد نے دالبندین میں بلوچ نسل کشی کے خلاف تاریخی احتجاجی مظاہرہ کیا۔ تاہم، صرف ایک دن بعد، 26 جنوری کو، بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے مزید آٹھ واقعات رپورٹ ہوئے۔ اگر یہ نسل کشی نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟
انہوںنے کہا کہ ساحلی شہر گوادر میں ذاکر سومر اور نسیم حمید کو پاکستانی فورسز نے گھٹی ڈھور چوک سے زبردستی اغوا کر لیا۔
تربت، کیچ کے علاقے چاہ سر میں رات تقریباً 2 بجے پاکستانی فورسز نے ضمیر سرور کے گھر پر چھاپہ مارا، مکمل تلاشی لی اور جبری طور پر لاپتہ کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔
پنجگور میں پاکستانی فورسز نے رحیم بخش کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے تین بیٹوں ارشاد رحیم بخش، صادق رحیم بخش اور ظہور رحیم بخش کو زبردستی لاپتہ کردیا۔
دریں اثنا، رکھنی، بارکھان میں اسلم کھیتران اور بلوچی زبان کے فنکار ناری گلاف مری کو سادہ لباس میں سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑیاں چلانے والے افراد نے حراست میں لے کر غائب کر دیا۔
بی وائی سی رہنما نے کہا کہ جبری گمشدگیاں بلوچ نسل کشی کی پالیسی میں ایک ظالمانہ اور خطرناک ہتھیار بنی ہوئی ہیں، ایک ایسی حکمت عملی جس نے پورے بلوچ معاشرے کو مفلوج کر دیا ہے۔ کوئی بلوچ اپنے گھر کے اندر بھی محفوظ محسوس نہیں کرتا۔ اس کے باوجود اس جاری نسل کشی کے خلاف عالمی برادری کی خاموشی واقعی دل دہلا دینے والی ہے۔