پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ شمالی سندھ سے ہندو کمیونٹی نقل مکانی کر رہی ہے اور اکثر کی منزل انڈیا ہے۔ کیا ہندو کمیونٹی سندھ چھوڑ رہی ہے کے عنوان سے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اغوا، بھتہ خوری، بدامنی، مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات اور کاروبار میں نقصان اس نقل مکانی کی وجہ بن رہی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے بتایا کے ان کی اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی 1300 پاکستانیوں کی انڈیا میں شہریت کی درخواستیں فیصلے کی منتظر ہیں اور یہ لوگ برسوں سے وہاں موجود ہیں۔ ان کے مطابق ان میں سے کُچھ تو پیسے والے ہیں وہ تو ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں ان کی داد رسی بھی ہے لیکن غریب وہاں دربدر ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے کونسل ممبر صحافی سہیل سانگی کا کہنا تھا کہ ’ایک تاثر ہے کہ اس نقل مکانی میں ریاست کے کچھ ادارے بھی شامل ہیں اگر ایسا کچھ ہے تو یہ بات قابلِ تشویش ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جو مقامی منتخب نمائندے ہیں وہ ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو تحفظ کی یقین دہانی کرائیں۔‘
کشمور سے انسانی حقوق کمیشن کے ضلعی کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ ’انھیں اس مطالعے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کلائیمنٹ چینج بھی اس نقل مکانی کی ایک وجہ ہے کیونکہ ان علاقوں میں چاول کی کاشت ہوتی ہے چاوال کی صفائی کے کارخانوں سے لیکر مقامی کاروبار تک ان کا ہے مسلسل بارشوں، سیلابوں کی وجہ سے زراعت متاثر ہوئی ہے اور ہندو کمیونیٹی کو نقصان ہوا ہے بقول ان کے صرف ان کے ضلعے سے پانچ سو خاندانوں نے ویزے کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے۔‘
حکومت سندھ کے اقلیتی امور کے بارے میں مشیر راجویر سنگھ کا کہنا تھا کہ ’ہندو کو ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہی تحفظ دے سکتا ہے شمالی سندھ میں مسلم آبادی بھی بدامنی کا شکار ہے لیکن ان کے پیچھے قبیلہ کھڑا ہوتا ہے وہ اکیلا نہیں ہوتا یہ سہولت ہندو آبادی کو حاصل نہیں، انھوں نے تسلیم کیا کہ سندھ میں جبری مذہب کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘
حکومت سندھ کی جانب سے اسمبلی میں جبری مذہب کی روک تھام کے بل پیش کرنے اور اس کے بعد پیروی نہ کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ اس بل پر سماج کے ایک ایکشن نے سخت مخالفت اور مزاحمت کی جس وجہ سے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔