افغانستان : لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا کوئی شرعی جواز نہیں، طالبان رہنما

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

افغانستان میں طالبان کی وزارتِ خارجہ میں سیاسی نائب شیر عباس ستانکزئی نے ہفتے کو جنوب مشرقی صوبے خوست میں ایک تقریر کے دوران لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں سے متعلق تبصرہ کیا ہے۔

ایک مذہبی مدرسے کی تقریب سے تقریر میں ستانکزئی نے کہا کہ لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسے پہلے بھی اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور ماضی میں بھی یہ پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے تھی۔

اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

گزشتہ ستمبر یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ طالبان حکومت نے خواتین کو طبی ٹریننگ لینے سے بھی روک دیا ہے۔

افغانستان میں صرف خواتین ڈاکٹرز اور طبی عملے کو خواتین اور لڑکیوں کا علاج کرنے کی اجازت ہے۔ طالبان حکام نے طبی تربیت سے متعلق پابندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں ستانکزئی نے کہا ہے کہ ہم اپنی قیادت پر ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ سب کے لیے تعلیم کے دروازے کھولے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم چار کروڑ میں سے دو کروڑ آبادی کو ان کے حقوق سے محروم کرکے نا انصافی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ اسلامی شریعت کے مطابق نہیں البتہ ہماری اپنی طبعیت یا پسند و ناپسند کا معاملہ ہو سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا آج کسی حیلے بہانے سے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں بھی تمام مردوخواتین پر علم کے دروازے کھلے تھے۔ آج دنیا اس پابندی کو بنیاد بنا کر ہم پر تنقید کر رہی ہے۔

شیر عباس ستانکزئی طالبان کی اس مذاکراتی ٹیم کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل تھے جس نے افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کے لیے بات چیت کی تھی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ستانکزئی نے لڑکیوں اور خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے حق میں بیان دیا ہے۔

اس سے قبل ستمبر 2022 میں بھی انہوں نے بچیوں کے اسکول کئی ماہ بند رکھنے اور یونیورسٹی تعلیم پر پابندی کے اقدامات کے بعد ایسے ہی بیانات دیے تھے۔

ستانکزئی نے طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ سے اس پالیسی میں تبدیلی کے لیے براہِ راست مطالبہ کیا ہے۔

Share This Article