دالبندین کی "راجی مچی” کے اثرات ہلمند اور سیستان تک محسوس ہونگے، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
2 Min Read

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے گذشتہ روزبلوچ نسل کشی یادگاری دن کی مناسبت سے جاری آگاہی مہم کے سلسلے میں خاران میں ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کو اپنے گھروں کے دروازے ان مہمانوں کے لیے کھول دینے چاہئیں جو ہلمند، سیستان، اور کوہ سلیمان کے علاقوں سے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ مہمان نوازی اور یکجہتی کی روایات کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ قوم متحد ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکے۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے دالبندین میں 25 جنوری کو منعقد ہونے والی “راجی مچی” کو گوادر کی “راجی مچی” سے زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر کی تقریب نے مغربی بلوچستان کے مکران علاقوں جیسے چھابہار، نوبندیاں، دشتیاری، کنارک، پسابندر، درگس، اور جر میں سیاسی اتحاد کی فضا پیدا کی، جو ایک مثبت قدم تھا۔ تاہم، ڈالبندین کے پروگرام کے اثرات نہ صرف سیستان بلوچستان کے زاہدان بلکہ افغانستان کے بلوچ علاقوں ہلمند، نمروز، زرنج، اور لشکر گاہ تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہدالبندین کی “راجی مچی” آنے والے دنوں میں بلوچ یکجہتی کے لیے ایک نئے اور وسیع سیاسی اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہے۔

انہوں نے اس تقریب کو بلوچ قوم کی مستقبل کی کامیابیوں کے لیے ایک اہم موقع قرار دیا اور کہا کہ اتحاد کے بغیر بلوچ نسل کشی کو روکنا ممکن نہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے خطاب میں بلوچ عوام پر زور دیا کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں اور اپنی تاریخ، ثقافت، اور حقوق کی حفاظت کے لیے متحد ہو جائیں۔

Share This Article