جنوبی کوریا میں مارشل لا لگانے والے صدر یون سک یول گرفتار

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

جنوبی کوریا میں تحقیقاتی اداروں نے ناکام مارشل لا پر مواخذے کا سامنا کرنے والے صدر یون سک یول کو گرفتار کر لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بدھ کی صبح تحقیقاتی اداروں نے صدر یون کو کئی گھنٹوں کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا۔

جنوبی کوریا میں پہلی بار کسی عہدے پر موجود صدر کو بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

یون سک یول کو گرفتار کرنے کے بعد تحقیقاتی ادارں کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ہیڈ کوارٹرز نے صدر یون کی گرفتاری کے لیے جاری ہونے والے وارنٹس پر بدھ کی صبح مقامی وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے عمل در آمد ممکن بنایا ہے۔

یون سک یول نے گرفتاری سے قبل ایک بیان میں کہا کہ وہ کسی بھی قسم کی خون ریزی سے بچنے کے لیے تحقیقات میں اداروں کی معاونت کریں گے۔

جنوبی کوریا میں مارشل لا لگانے پر صدر یون کا مواخذہ کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں بغاوت کی تحقیقات کے لیے متعدد بار گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اداروں کو اس میں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

رپورٹس کے مطابق بدھ کی صبح سیکڑوں اہلکاروں نے ان کی سرکاری رہائش گاہ کو گھیرے میں لیا۔ پولیس اور کرپشن انویسٹی گیشن آفس کے اہلکار لگ بھگ پانچ گھنٹوں تک صدارتی رہائش گاہ کا محاصرے کیے رہے۔

اطلاعات کے مطابق صدر کی رہائش گاہ میں داخل ہونے والے اہلکاروں کی اندر موجود افراد سے مڈبھیڑ بھی ہوئی۔ تاہم یہ شدید نوعیت کی جھڑپیں یا تصادم نہیں تھا۔

جس وقت صدر یون کو حراست میں لیا جا رہا تھا وہاں موجود ان کے حامی ان کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔

صدر یون صدارتی قیام گاہ سے ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہوئے اور کرپشن انویسٹی گیشن آفس کے دفتر پہنچے۔ ان کی گرفتاری کے فوری بعد حکام نے ان کے خلاف بغاوت کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

یون سک یول 2019 سے 2021 تک جنوبی کوریا کے سابق پراسیکیوٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ ان کی قیادت میں ملک کی قدامت پسند جماعت پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) کو 2022 کے انتخابات میں کامیابی ملی تھی۔ وہ مئی 2022 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

مقامی قانونی ماہرین اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر صدر کے خلاف بغاوت کے الزامات درست ثابت ہوئے تو انہیں سزائے موت یا عمر قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تحقیقاتی اداروں نے بغاوت کی تحقیقات کے لیے تین جنوری کو صدر کو حراست میں لینے کی کوشش کی تھی۔ تاہم صدارتی گارڈز اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مزاحمت پر صدر یون کی گرفتاری ممکن نہیں ہو سکی تھی۔

Share This Article