پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ بلوچستان میں عسکریت پسند ’معصوم لوگوں کی ذہن سازی کرکے ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کے لیے نوجوان بچے اور بچیوں کو استعمال کر رہے ہیں جو کہ ایک انتہائی شرمناک عمل ہے۔‘
پاکستانی فوج نے رواں برس نومبر میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے پُرتشدد احتجاج کو ’سیاسی دہشتگردی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ احتجاج 2014 میں پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری اداروں کی عمارتوں اور 9 مئی کے پُرتشدد واقعات ’منفی سیاست اور تشدد کا سلسلہ‘ ہے۔
جمعے کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر اس کے احتجاج کو ’نومبر سازش‘ قرار دیا اور کہا کہ ’اس کے پیچھے سیاسی دہشتگردی کی سوچ تھی۔‘
اس پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان نے ملک بھر کی سکیورٹی صورتحال، سکیورٹی آپریشنز، سرحدی صورتحال اور صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سیاسی سوالات کے بھی جوابات دیے۔
مئی کے پُرتشدد احتجاج کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ’ثبوت اور شواہد کے مطابق وہ تمام لوگ جو ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے ان کو سزائیں سنانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔‘
’9 مئی کے بارے میں جو افواجِ پاکستان کا نقطہ نظر ہے وہ انتہائی واضح ہے۔ یہ افواجِ پاکستان کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ عوام کا مقدمہ ہے۔ اگر کوئی مسلح گروہ اور پُرتشدد گروہ اپنی مرضی سے اپنی سوچ مسلط کرنا چاہے اور اسے آئین کے مطابق نہ روکا جائے تو پھر ہم اس معاشرے کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟‘
لیفٹینٹ جنرل احمد شریف چودھری کا مزید کہنا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں بھی جو 9 مئی سے متعلق مقدمات ہیں انھیں اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے اور اس سے ’جڑے منصوبہ سازوں اور گھناؤنے کرداروں‘ کو بھی سزا ملنی چاہیے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس ’منفی سیاست‘ کو گنجائش ’فیک نیوز‘ کے سبب مل رہی ہے اور اس کی واضح مثال 9 مئی کو ’فالس فلیگ آپریشن‘ قرار دینا یا اس کا ذمہ دار فوج اور دیگر اداروں کو قرار دینا ہے۔
پریس کانفرنس کی ابتدا میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے رواں سال ہونے والے سکیورٹی آپریشنز کے بارے میں بھی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رواں سال مجموعی طور پر سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشتگردوں اور ان کے سہولتکاروں کے خلاف مختلف نوعیت کے کامیاب 59 ہزار 775 انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیے۔‘
’ان کامیاب آپریشنز کے دوران 925 دہشتگرد بشمول فتنہ الخوارج کو ہلاک کیا گیا جبکہ سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ عسکریت پسند رواں برس مارے گئے جن میں 73 انتہائی مطلوب اور 27 افغان شدت پسند بھی شامل تھے۔
پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں عسکریت پسند ’معصوم لوگوں کی ذہن سازی کرکے ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کے لیے نوجوان بچے اور بچیوں کو استعمال کر رہے ہیں جو کہ ایک انتہائی شرمناک عمل ہے۔‘
پاکستانی فوج کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ملک بھر میں آپریشنز کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 383 افسران اور اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ روز پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے گذشتہ روز ’پاکستان افغانستان سرحد سے متصل علاقوں‘ میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کی تصدیق کی گئی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف واضح اور دو ٹوک مؤقف رکھتے ہیں کہ پاکستان کو کالعدم تنظیموں کے دستیاب پناہ گاہوں، سہولتکاری اور افغان سرزمین سے آزادانہ کارروائیوں پر تحفظات ہیں۔‘
’پاکستان دہشتگردوں کو نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور اپنے شہریوں کو ہر صورت میں تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔‘
پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے سوال کے دوران کہا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان کی افغان پالیسی پر تنقید کی ہے اور کہا ہے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
اس سوال پر ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان گذشتہ دو برسوں سے افغان عبوری حکومت سے بات چیت کر رہا ہے اور انھیں براہ راست بھی کہا گیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے روکیں۔
انھوں نے سابق حکومت اور عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ ’جب 2021 میں دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی، اس وقت بات چیت کے ذریعے کس نے انھیں دوبارہ آباد کروایا؟ اس سب کے نتائج ہم سب بھگت رہے ہیں۔‘
’ہمیں اس سے یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ 2021 میں کس کی ضد تھی کہ ان (عسکریت پسندوں) سے بات کی جائے اور اس ضد کی قیمت پاکستان اور پورا خیبر پختونخوا ادا کر رہا ہے۔‘
پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان نے انڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کی جانب سے مشرقی سرحد پر خطرات کا ہمیں بخوبی ادراک ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ رواں برس انڈیا نے سیزفائر کی 25 خلاف ورزیاں کیں، 564 مرتبہ بلااشتعال فائرنگ اور 61 مرتبہ پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔