امریکا شام میں کرد اتحادیوں کا ساتھ دیتا رہے گا، امریکی حکام

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

امریکہ کے سینئیر حکام کا کہنا ہے کہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے سے، کم از کم فی الحال، اسلامک اسٹیٹ دہشت گرد گروپ کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کے ایک سب سے ثابت قدم اتحادی کے لیے، امریکی حمایت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

امریکی حکام نےشام کے دار الحکومت میں باغی فورسز کے داخلے کے ایک روز بعد اور روسی حکام کی جانب سے شام کے سابق صدر بشار الاسد کے دمشق سے فرار اور ماسکو میں پناہ لینے کی تصدیق کے ایک گھنٹے بعد بات کرتے ہوئے، زور دیا کہ شام میں موجود لگ بھگ ان 900 امریکی فوجیوں کو تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے جن میں سے بیشتر ملک کے شمال مشرق میں کرد زیر قیادت ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ یا ایس ڈی ایف کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔

امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے اتوار کو حساس معلومات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ، ’’ مشرقی شام میں امریکی پوزیشنز کو برقرار رکھنا "ایک ایسا کام ہے جو ہم کرتے رہیں گے۔

اتوار کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ واشنگٹن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ شام یا ایس ڈی ایف ( سیرین ڈیمو کریٹک فورسز) کو چیلنجوں کا سامنا کرنے کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دے۔

صدر نے کہا کہ "داعش کے خلاف ہمارامشن برقرار رہےگا، جس میں حراستی مراکز کی سیکیورٹی بھی شامل ہے جہاں داعش کے جنگجوؤں کو قید میں رکھاجارہا ہے ۔”

بائیڈن نے مزید کہا کہ "ہم اس حقیقت پرگہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ اپنی صلاحیتوں کی بحالی، ایک محفوظ پناہ گاہ کی تشکیل کے لیے کسی بھی خلا کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔” ’’ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

امریکی عزم کو اجاگر کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ اتوار کو امریکی افواج نے آئی ایس کے کیمپوں اور کارندوں کے خلاف درجنوں فضائی حملے کیے ہیں۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ شام میں آئی اہس کےخلاف آپریشن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں، لڑاکا طیاروں اور قریبی فضائی مدد کے ذریعے 75 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

انتظامیہ کے سینئر اہلکار نے کہا، "ہم نے داعش کے جنگجوؤں اور رہنماؤں کے ایک اہم اجتماع کو نشانہ بنایا،” انہوں نے مزید کہا کہ امریکی جنگی طیاروں نے ان حملوں کے دوران تقریباً 140 گولے پھینکے، جن کی اجازت اتوار کے اوائل میں دی گئی تھی۔

اہلکار نے مزید کہا، "میرے خیال میں، علاقے کے سائز اور وہاں موجود آئی ایس آئی ایس کے ارکان کی تعداد کے پیش نظر یہ ایک اہم حملہ تھا ۔”

امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے اتوار کو صحافیوں کو بریفنگ کے دوران ہوئے اسلامک اسٹیٹ گروپ کا مخفف استعمال کرتے ہوئے، جسے آئی ایس یا داعش بھی کہا جاتا ہے، کہا،”ہم سمجھتے ہیں کہ ان علاقوں کے استحکام اور داعش کی دوبارہ سر اٹھانے کی کوششوں کو کچلنے کے لیےاور وہاں استحکام قائم رکھنے کے لیے ایس ڈی ایف اور ان گروپس کی سالمیت کے لیے بھی جن کے ساتھ ہم مشرق میں کام کرتے ہیں۔ وہ موجودگی انتہائی اہم ہے۔

ایس ڈی ایف 2015 میں تشکیل دیا جانے والا کرد اور عرب ملیشیاؤں کا ایک اتحاد ہے، جس میں 30,000 سے 40,000 جنگجوؤں کی ایک فورس کو اکٹھا کیا گیا تھا جس نے دہشت گرد گروپ کے خود اعلان کردہ شامی دارالحکومت رقہ سمیت علاقے کے بڑے بڑے حصوں پر داعش کی گرفت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اپنے قیام کے چار سال بعد مارچ 2019 میں ایس ڈی ایف نے شام میں آئی ایس کے آخری مضبوط گڑھ باغوز پر قبضے کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن اس ایک سالہ مہم کے دوران ایس ڈی ایف کے عہدے داروں کے اندازے کے مطابق ان کے لگ بھگ 11 ہزار جنگجو مارے گئے ۔ دہشت گرد گروپ کے بچے کھچے ارکان کے ساتھ لڑائی جاری ہے ۔

اس کے علاوہ ایس ڈی ایف کے پاس بے گھر افراد کے کیمپوں ، مثلاً الہول اور الروج کی سیکیورٹی کی نگرانی کا چارج بھی ہے ، جہاں تقریباً 30 ہزار لوگ رہتے ہیں ، جن میں سے بیشتر 12 سال سے کم عمر کے بچے ہیں، اور بہت سوں کا تعلق داعش کے وفادار خاندانوں سے ہے۔

Share This Article