ترکی کے صدر طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ ترکی لاکھوں شامی تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی میں مدد کے لیے شام کے ساتھ سرحدی گیٹ دوبارہ کھول رہا ہے۔
ترکی کے صوبہ ہاتے میں واقع یالادگی سرحدی گیٹ دونوں ممالک کے درمیان ایک کراسنگ پوائنٹ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ترکی میں تیس لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین موجود ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ، جرمنی، فرانس، آسٹریا اور کئی دیگر ممالک نے شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی زیر التوا درخواستوں پر فیصلے روکنے کا اعلان کیا ہے۔
برلن اور دیگر حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ دمشق میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت کو دیکھ رہے ہیں لیکن شامی باغیوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کو معزول کیے جانے کے ایک دن بعد آسٹریا نے عندیہ دیا ہے کہ وہ جلد ہی مہاجرین کو شام واپس بھیج دے گا۔
سویڈن، ڈنمارک اور ناروے نے بھی پیر کو کہا ہے کہ وہ شامی پناہ گزینوں کی پناہ کی درخواستوں کی جانچ معطل کر رہے ہیں۔
گذشتہ سالوں میں ملک میں جاری خانہ جنگی نے لاکھوں شامیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔
جرمنی نے تقریباً 10 لاکھ شامی باشندوں کو پناہ دی ہے جن میں سے زیادہ تر 2015-16 میں سابق چانسلر انجیلا مرکل کے دور میں وہاں پہنچے تھے۔
وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا ہے کہ بہت سے شامی پناہ گزینوں کو ’اب بالآخر اپنے وطن واپس جانے کی امید ہے‘ تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ ’شام کی صورت حال اس وقت بہت غیر واضح ہے۔‘
ادھر برطانیہ نے بھی شام سے تعلق رکھنے والے افراد کے سیاسی پناہ کے کیسز پر فیصلوں کو روک دیا ہے۔
برطانیہ کی ہوم سکریٹری یوویٹ کوپر کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے ’شام سے تعلق رکھنے والے افراد کے سیاسی پناہ کے کیسز پر فیصلوں کو روک دیا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ ہوم آفس موجودہ صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں صورتحال انتہائی تیزی سے بدیل ہو رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کچھ لوگ شام واپس جا رہے ہیں اور برطانوی حکومت وہاں ہونے والی پیش رفتوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔