انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دعویٰ کیا ہے کہ تحقیقات کے دوران انھیں ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے اور یہ اب بھی جاری ہے۔
جمعرات کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے فلسظینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کیلامرڈ کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے ارادے سے اسرائیل نے جینوسائیڈ کنونشن میں ممنوع کارروائیاں کی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ وہ کئی ماہ کے واقعات اور اسرائیلی حکام کے بیانات کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔
اسرائیل نسل کشی کے ان الزامات کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا ہے اور اسے 7 اکتوبر جیسے حملوں سے دفاع کا حق حاصل ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 1948 کی جینوسائیڈ کنونشن کے تحت ممنوع پانچ میں سے تین کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے جن میں قتل، سنگین جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا، اور جان بوجھ کر زندگی کے حالات کو نقصان پہنچانا ہے جن کا مقصد ایک خاص گروپ کی تباہی ہے۔
کیلامرڈ کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی کا ارادہ نسل کشی ثابت کرنا نہیں تھا تاہم شواہد اور بیانات کا جائزہ لینے کے بعد واحد نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسرائیل کا غزہ میں نسل کشی کا ارادہ تھا اور اب بھی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے ممالک جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بھی نسل کشی کو روکنے کی اپنی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔