بلوچستان میں فوجی آپریشن ، جبری گمشدگیاں ،ماورائے عدالت و غارت گری ،بنیادی مسئلہ ووسائل کی ملکیت پرکوئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کاانعقاد کیا گیا۔
اس مشترکہ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے رشید خان ناصر، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے یوسف خان کاکڑ، نیشنل پارٹی کے علی احمد لانگو، مجلس وحدت مسلمین کے علامہ ولایت حسین جعفری، جماعت اسلامی کے زاہد اختر اور ولی خان شاکر نے شرکت کی۔
تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام لاپتا افراد کی فوری بازیابی، سیاسی رہنماؤں کے خلاف الزامات واپس لینے، دینی مدارس پر چھاپے بند کرنے، چمن بارڈر پر ون ڈاکومنٹ رجیم اٹھانے اور پرانے بارڈر کراسنگ سسٹم کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ دونوں اطراف کے لوگوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دی جاسکے۔
سیاسی رہنماؤں نے بلوچستان میں غیر مقامی لوگوں کو زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
یہ مطالبات پیر کو مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پیش کیے گئے۔
مولانا ہدایت الرحمٰن نے دو ہفتے قبل کوئٹہ میں ہونے والی کثیرالجماعتی کانفرنس میں اپنایا گیا 17 نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کا بنیادی مسئلہ وسائل کی ملکیت پر عوام کے حق سے انکار، ماضی اور حال میں طاقتور قوتوں کے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ساحلی پٹی اور وسائل پر ناجائز قبضہ اور استحصال ہے۔
اعلامیے میں ’اصل منتخب عوامی نمائندوں‘ کی جیت کا اعلان کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے غیر منتخب نمائندوں کو ڈی سیٹ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے ان اقدامات کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
اعلامیے میں تمام لاپتا افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا اور 26ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جس میں 90 دن کی ماورائے عدالت حراست کی اجازت دی گئی ہے۔ اس میں لاپتا افراد کے کیمپوں کو نذر آتش کرنے اور چمن، تفتان، گوادر، پنجگور اور مند سمیت بلوچستان میں تمام سرحدوں کی بندش کی بھی مذمت کی گئی ہے، جس سے 30 لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہوچکے ہیں۔
اعلامیہ میں تمام سرحدوں کو فوری طور پر دوبارہ کھولنے اور سرحدی تجارت کو آسان بنانے کے لیے مستقبل کے فیصلے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کی مشاورت سے کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔
اعلامیے میں منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں نوجوان اس مسئلے کا شکار ہوچکے ہیں اور منشیات کی کاشت پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ کثیرالجماعتی کانفرنس کے اعلامیہ میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بلوچستان میں فوجی آپریشن ختم کرے اور کوئٹہ، گوادر اور دیگر شہروں میں منشیات کی بڑھتی ہوئی تجارت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
اس موقع پر سردار اختر مینگل اور داؤد شاہ کاکڑ سمیت سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج مقدمات اور انسداد دہشت گردی کی آڑ میں دینی مدارس پر جاری چھاپوں پر بھی اظہار مذمت کیا گیا جس سے طلبہ اور شہریوں میں خوف وہراس پایا جاتا ہے۔
اعلامیے میں مزید مطالبہ کیا گیا کہ گوادر، پسنی، جیوانی، اورماڑہ اور گڈانی جیسے ساحلی علاقوں میں سرگرم غیر قانونی ٹرالر مافیا کو کنٹرول کیا جائے، کیونکہ یہ مقامی ماہی گیروں کا ذریعہ معاش تباہ کر رہا ہے۔