بلوچستان کے علاقے نوشکی میں سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ اور دیگر بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک)کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
جبری گمشدگیوں کے خلاف یہ پانچواں مظاہرہ تھا جو بلوچستان کے شہر نوشکی میں منعقد کیا گیا جبکہ اس سے قبل کوئٹہ، تربت، خضدار اور اُتھل میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔
سہیل اور فصیح بلوچ کو3 سال قبل کوئٹہ کی یونیورسٹی آف بلوچستان کے احاطے سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، انہیں تاحال رہا نہیں کیا گیا۔
اس دؤران ریلی کے شرکاء نے نوشکی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے نعرہ بازی کی۔
نوشکی احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے لاپتہ کرکے انکا مسقبل کو تباہ کیا جارہا ہے اگر ہمارے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے تو انھیں عدالتوں میں پیش کرکے ٹرائل کا موقع دیں الزام ثابت کریں بنا کسی پروسس کے ہمارے لوگ سالوں زندانوں میں قید کئے جاتے ہیں۔
اس دؤران ریلی میں سالوں سے نوشکی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کے اہلخانہ اور بچے بھی شریک ہوئے جنھوں نے اپنے ہاتھوں اپنے لاپتہ پیاروں کے تصاویر اُٹھائے انکی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھیں۔
بساک کی جانب سے سہیل و فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کے تین سال مکمل ہونے پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں گذشتہ روز کوئٹہ، خضدار، تربت، اوتھل میں طلباء کے احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔