بلوچستان میں 30 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہونے کا انکشاف ہواہے۔
وزارت منصوبہ بندی کی جاری کردہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن پلاننگ رپورٹ میں بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کے حوالے سے 30 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہونے کا انکشاف ہواہے۔
اس رپورٹ میں واضح ہے ضلع گوادربلوچستان میں تعلیمی حوالے سے پہلے نمبر پر ہے جبکہ یہی ضلعپاکستان کی رینکنگ میں 67 واں نمبر پر ہے یعنیپاکستان کے پہلے 60 اضلاع میں بلوچستان کا ایک ضلع بھی شامل نہیں ہے۔
انفرا اسٹرکچر،انتظامیہ سمیت تعلیمی سرگرمیوں میں پاکستان کا کمزرو ترین اضلاع بلوچستان کے ہیں۔
اس طرح کتابیں، اساتذہ، بلڈنگ ودیگر سہولیات سے محروم اسکولوں میں بلوچستان کے سب سے زیادہ اسکول ہیں۔ مجموعی طور پر بھی بلوچستان کے اسکول ہر حوالے سے پسماندگی کا شکار ہیں جو اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
بلوچستان میں دور دراز علاقوں تعلیمی پسماندگی کے بہت سے واضح اور اعلیٰ مثال قائم ہیں مگر دارالخلافہ کوئٹہ میں بھی صورتحال ابتر ہے ۔ کوئٹہ میں بلوچستان سیکٹریٹ سے تقریبا پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر نیو کاہان میں ایک ایسا محلہ بھی ہے جہاں اسکول نہ ہونے سے بمشکل 10 فیصد بچے تعلیم حاصل کررہے ہوں اور یہ دس فیصد بچے کئی کلو میٹر دور پیدل کرکے اسکول پہنچتے ہیں۔
یہ علاقہ مری قبائل پر مشتمل ہے جو 1990 کی دہائی میں ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ حکومت نے انہیں زمین تو فراہم کی مگر آج دن تک کسی سرکاری اسکول کی منظوری نہ دے سکی۔
یہاں کے رہائشی نوجوان ضیا کا کہنا ہے “مجھے تعلیم کا کافی شوق تھا میرے والدین مجھے پڑھ لکھ کر ایک سرکاری افسر دیکھنے کا خواہش رکھتے تھے اور میرے والدین کی یہ خواہش ایک خواب بن کر ادھورا رہ گیا میں کبھی تعلیم حاصل نہ کرسکا۔”۔
ماہرین تعلیم بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کے مختلف وجوہات بتاتے ہیں جن میں ایک خاص وجہ اساتذہ کی شدید کمی بھی ہے ۔
بلوچستان ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن کے مطابق بلوچستان کے اسکولوں 10 لاکھ سے زائد زیر تعلیم طلبہ کے لیے 52 ہزار اساتذہ موجود ہیں جبکہ 18 ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں 2019 سے ایک بھی اساتذہ کی تعیناتی ممکن نہ ہوسکا ہے۔ 9 ہزار مشتہر اسامیاں کے لیے ٹیسٹ کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے تاہم عدالت کے حکم کے باوجود ان کی تعیناتی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور اس وقت 30 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ اسکولوں میں صرف 43 فیصد سہولیات دستیاب ہیں۔