بلوچستان کے عوام میں ریاستی جبر کا تاثر پایا جاتا ہے،فوج کا اعتراف

0
33

بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جنگی جرائم ڈکھے چھپے نہیں۔فوجی آپریشن کے نام پر روزانہ آبادیوں میں جارحیت،جبری گمشدگیاں ،ماورائے عدالت جعلی کارروائیوں میں لاپتہ افرادوبے گناہ افراد کاقتل اورجاری ظلم وبربریت کااب فوج خود اعتراف کر رہی ہے۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر پایا جاتا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ فوج قومی ادارہ ہے اور اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات ثابت ہونے پر فیض حمید کے خلاف فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ اس کیس میں جو بھی ملوث ہوا، خواہ اس کا کوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر سے صحافی صدیق ساجد نے سوال کیا کہ ’جیسے جیسے کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھ رہی ہے پی ٹی آئی رہنما اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عمران خان کے خلاف بھی فوجی ایکٹ میں کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے؟‘

اس سوال کے جواب میں میجر جنرل احمد شریف چوہدری کہا کہ ’یہ عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی فرد یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہو اس کو اپنے مقاصد کے لیہ استعمال کرے تو قانون اپنا رستہ خود بنا لے گا۔‘

اس سے قبل پریس کانفرنس کے آغاز میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 12 اگست کو آئی ایس پی آر جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے حوالے سے بتایا گیا تھا۔

ان کے مطابق ’ریٹائرڈ افسر کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں باضابطہ طورپر درخواست موصول ہوئی، اپریل 2024 میں پاک فوج کی طرف سے اعلیٰ سطح کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا، تاکہ مکمل تحقیقات کی جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹھوس شواہد پر مبنی تفصیلی انکوائری مکمل ہونے کے بعد 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی نے باضابطہ طور آگاہ کیا کہ متعلقہ ریٹائرڈ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانب سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے اور ان بنیادوں پر فیلڈ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان آرمی قومی فوج ہے، اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، نہ یہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے، نہ ہی طرف دار۔

’فوج کا ہر حکومت کے ساتھ پیشہ ورانہ اور سرکاری تعلق ہوتا ہے جس کو آئین اور قانون میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بات جاننا اہم ہے کہ اگر فوج میں کوئی شخص اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی خاص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو پاک فوج کا خود احتسابی کا عمل حرکت میں آ جاتا ہے۔ ثبوت و شواہد کی روشنی میں جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق اس کیس میں جو ذاتی فائدے حاصل کرنے کے لیے کام کیے گئے اور شواہد ملے وہ انکوائری کے سامنے ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’متعلقہ افسر کے حوالے سے ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے واقعات سامنے آئے۔ جس کا بھی کورٹ مارشل ہوتا ہے اس کو فیئر ٹرائل کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں اس لیے اس پر حتمی ٹائم فریم نہیں رکھا جاتا۔ یہ آن گوئنگ قانونی کیس ہے۔‘

’جو بھی شخص اس کیس میں ملوث ہو گا وہ قانون سے باہر نہیں ہو گا چاہے اس کا کوئی بھی عہدہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے، اس کا خود احتسابی کا نظام انتہائی جامع اور مضبوط عمل جو ’ٹائم ٹیسٹڈ‘ ہے، یہ الزامات کے بجائے، ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے دیشت گردی کے خلاف آپریشنز سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف اس سال 32 ہزار سے زائد آپریشنز کیے گئے ہیں جس میں 90 خوارج کوہلاک کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ آخری خوارجی اور دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔

میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’20 اگست سے وادی تیراہ میں فتنہ الخوارج، نام نہاد کالعدم تنظیم لشکر اسلام اور جماعت الحرار کے خلاف کامیاب آپریشن کیا گیا۔ کامیاب آپریشن کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کو بڑا دھچکا لگا۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ’25 اور 26 اگست کی رات دہشت گردوں نے بلوچستان میں کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں اندورن اور بیرون ملک دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ایما پر کی گئیں۔ ان کا مقصد معصوم اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا ہے۔‘

میجر جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ دو دہائیوں سے زیادہ دہشتگردی کی جنگ میں 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو دہشتگردوں سے کلیئر کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس لیے ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عملاً ایسا علاقہ نہیں جہاں دہشتگردوں کی اجارہ داری ہو، تو جو کلیئر اور ہولڈ کے مراحل ہیں وہ تو مکمل ہو چکے ہیں۔‘

بلوچستان کی صورت حال کے حوالے سے بھی انھوں نے پریس کانفرنس میں تفصیلی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر بھی پایا جاتا ہے، جس کو بیرونی ایما پر مخصوص عناصر منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق’وہ اس کو اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ بلوچستان میں ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا جاری عمل خوف و ہراس کے ذریعے متاثر کیا جا سکے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’نہتے شہریوں کو ظلم کا نشانہ بنانا اور اس پر فخر ان کی ذہنیت اور مایوسی کی عکاسی ہے۔ دہشت گردوں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ شہریوں کے جان و مال اور ترقی کے دشمنوں سے ریاست آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ جب بھی فوج میں قائم قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ خود کار نظام حرکت میں آتا ہے۔ متعلقہ افسران کو قانون کے تحت تمام حقوق حاصل ہوں گے جیسے اپنی مرضی کا وکیل۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ اس طرح کی خود احتسابی باقی اداروں کو بھی ترغیب دے گی۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا انسداد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ ایک منظور شدہ اور مربوط حکمت عملی کے تحت لڑی جارہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں، سٹیک ہولڈرز اور تمام حکومتوں نے اس حکمت عملی کو مرتب کیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کی جان شان اور آن ہے۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے شاید ہی کوئی افسر ہو جس نے وہاں سرو نہ کیا ہو۔ زیادہ رقبے میں کم آبادی کے مسائل وہاں جنم لیتے ہیں۔ وہاں بلوچ ہی نہیں بلکہ پختون براہوی سمیت دیگر بھی شامل ہیں۔‘

ان کے مطابق بلوچستان میں حقیقی نمائندگی نہ دیے جانے کا منفی بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ ان کا بیانیہ احساس محرومی کا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here