امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ کولن پاو¿ل نے نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کے بارے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ردعمل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ نے آئین سے انحراف کیا ہے۔
کولن پاو¿ل کا تعلق ریپبلیکن پارٹی سے ہے اور وہ امریکی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔ وہ بھی اب ان افراد میں شامل ہو گئے ہیں جنھوں نے مظاہروں کے بارے میں صدر ٹرمپ کے رویے کی مذمت کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیجنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
کولن پاو¿ل نے کہا ہے کہ وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کو ووٹ دیں گے۔
صدر ٹرمپ نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ کولن پاو¿ل بالکل بھی اتنے قابل نہیں ہیں جتنا انھیں سمجھا جاتا ہے۔
کولن پاو¿ل پہلے افریقی نژاد امریکی ہیں جو فوج کے سربراہ بنے۔ وہ اب امریکی فوج کے ان اعلیٰ سابق اہلکاروں کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جو صدر ٹرمپ پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ پر یہ تنقید ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ کے کئی شہروں میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مظاہرے ایک افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ یہ واقعہ 25 مئی کو منی ایپلس میں ہوا تھا۔
اتوار کو منی ایپلس کی شہری کونسل کے 13 ارکان نے سینکڑوں مظاہرین کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ مقامی پولس کے محکمے کو ختم کر کے عوامی تحفظ کا ایک ایسا نیا نظام قائم کیا جائے گا جو لوگوں کو واقعی محفوظ رکھے گا۔
اس دوران امریکہ بھر میں حفاظتی انتظامات نرم کیے جا رہے ہیں کیونکہ کشیدگی بھی کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ نیویارک میں ایک ہفتے سے جاری کرفیو ختم کر دیا گیا ہے اور صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن ڈی سی سے نیشنل گارڈز کو واپس بلا رہے ہیں۔
اتوار کو ٹی وی چینل سی این این پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ’ہمارا ایک آئین ہے اور ہم اس آئین کی پیروی کرتے ہیں اور صدر نے اس سے انحراف کیا ہے۔‘
صدر ٹرمپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ‘وہ چیزوں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں اور اس لیے بچ نکلتے ہیں کیونکہ لوگ ان سے جواب طلب نہیں کرتے۔’
کولن پاو¿ل نے صدرٹرمپ کے بیانات کو امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا اور اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ‘میں یقینی طور پر اس سال صدر ٹرمپ کی حمایت نہیں کر سکتا۔’
‘میرے سماجی اور سیاسی خیالات جو بائیڈن کے بہت قریب ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ تقریباً 40 سال کام کیا ہے۔ اب وہ صدارتی امیدوار ہیں اور میں انھیں ووٹ دوں گا۔’
کولن پاو¿ل ایک اعتدال پسند ریپبلیکن کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ سنہ 2016 کے انتخابات میں بھی انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ سی این این پر انٹرویو میں انھوں نے امریکی فوج کے ان اعلیٰ اہلکاروں کی بھی حمایت کی جنھوں نے حالیہ دنوں میں صدر ٹرمپ پر نکتہ چینی کی ہے۔
صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے والوں میں صدر باراک اوبامہ کے دور میں جوائنٹ چیف آف سٹاف چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی اور سابق وزیر دفاع جنرل جیمس میٹِس بھی شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر کہا ‘کولن پاو¿ل ایک سخت آدمی ہیں اور ہمیں مشرقِ وسطیٰ کی تباہ کن جنگ میں پھنسانے کے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔’ صدر ٹرمپ سنہ 1990 سے 1993 تک ہونے والی خلیجی جنگ اور سنہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
اگلے امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن نے بھی مظاہروں سے نمٹنے کے صدرٹرمپ کے طریق? کار پر تنقید کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ‘صدر کی حیثیت سے انھوں نے تشدد پر اکسانے، نفرت اور تقسیم کی آگ بھڑکانے اور ہمیں ایک دوسرے سے مزید دور کرنے کے لیے اپنے الفاظ کا سنگدلی سے استعمال کیا۔’
سابق وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے ٹویٹ کرنے کا سلسلہ روک دیں اور امریکی عوام سے گفتگو کریں۔
گذشتہ مہینے امریکہ میں ایک سیاہ فام نہتے شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد امریکہ کے کئی شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
جلد ہی کئی دوسرے ممالک میں بھی نسل پرستی کے خلاف بڑے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ برطانیہ میں وسطی لندن میں ہزاروں افراد پارلیمنٹ سکوائر پر اکھٹے ہوئے۔
اس کے علاوہ آ سٹریلیا، جرمنی، سپین اور فرانس میں بھی نسلی امتیاز اور پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کیے گئے۔