لورالائی میں سابق افغان فوجی کمانڈر کو قتل کر دیاگیا

0
49

بلوچستان کے ضلع لورالائی میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ایک سابق افغان فوجی کمانڈر کو قتل کر دیاہے۔

ضلع لورالائی میں دو روز قبل قتل ہونے والے ایک شخص کے بارے میں پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ وہ افغانستان کا سابق فوجی کمانڈر تھا جو شناخت بدل کر پاکستان میں رہ رہا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق برات خان عرف غفار کو اتوار 18 اگست کو لورالائی کی سبزی منڈی میں اس وقت گولیاں مار کر قتل کیا گیا جب وہ ایک دکان سے سبزیاں خرید رہے تھے۔

لورالائی کے سب ڈویژنل پولیس آفیسر ڈی ایس پی کلیم اللہ کے مطابق ’عینی شاہدین نے پولیس کو بتایا کہ فائرنگ سے پہلے قاتل نے برات خان کو نام سے پکارا اور پھر ان پر پستول سے فائر کیا گیا۔ سینے میں دو گولیاں لگنے سے ان کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔

فائرنگ کے بعد قاتل ایک دوسرے شخص کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گیا۔

‘ڈی ایس پی کلیم اللہ کے مطابق برات خان سلیمان خیل لورالائی کے علاقے ناصر آباد میں اپنے چچا، بھائی اور دوسرے رشتہ داروں کے ہمراہ رہائش پذیر تھے اور انہوں نے غفار کے نام سے نئی پہچان بنائی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ برات خان نے لورالائی کے سرکاری ٹیچنگ ہسپتال کے قریب سبزی کی دکان کھول رکھی تھی۔ وہ روزانہ سبزی منڈی جا کر وہاں سے سبزیاں خریدتے تھے اور پھر اپنی دکان پر لا کر فروخت کرتے تھے۔ قاتلوں نے ان کے اسی معمول کا فائدہ اٹھا کر انہیں نشانہ بنایا۔

لورالائی کے ضلعی پولیس سربراہ ایس ایس پی محمد ظفر بزدار کے مطابق مقتول کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس کا تعلق افغانستان سے تھا اور وہ گذشتہ دو تین برسوں سے لورالائی میں شناخت بدل کر رہ رہا تھا۔

’مقتول کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ ان کا یہاں کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تاہم افغانستان میں ان کی دشمنی ہے۔ انہوں نے کسی کے خلاف مقدمہ درج کرانے سے انکار کیا اس لیے پولیس نے سرکار کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔

‘افغانستان کے حالات پر نظر رکھنےوالے میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق مقتول افغانستان میں برات باختر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ان کا تعلق افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع وازی خوا سے تھا۔ انہوں نے صوبہ پکتیکا کے مختلف اضلاع میں افغان فورسز کے ریزرو یونٹ میں کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

بلوچستان میں اس طرز کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل اکتوبر 2022 میں کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس پر نامعلوم افراد نے سابق افغان پولیس کمانڈر عبدالصمد اچکزئی کو گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔

وہ افغان صوبہ کندھار کے ضلع پنجوائی کے سابق ڈپٹی ڈسٹرکٹ پولیس چیف تھے۔

عبدالصمد نے اپنی موت سے کچھ دن قبل سوشل میڈیا پر افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک تعلیمی مرکز میں ہونے والے بم حملے کے حوالے سے بیان جاری کیا تھا کہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

اگست 2021 میں افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان کی سابق حکومت اور فورسز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد نے بھاگ کر پاکستان اور دیگر ممالک میں پناہ لے لی۔

برات خان کے قتل کے واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب ایکس پر سابق اور موجودہ افغان حکومت کے حامیوں کے درمیان بحث چھیڑ گئی ہے۔

افغانستان کی سابق حکومت کے اہلکاروں اور حامیوں نے اس قتل کے لیے افغان طالبان کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

مقتول کے سابق ساتھیوں نے الزام لگایا کہ قتل سے پہلے برات کو ایک طالب عہدے دار نے فون پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ برات خان کے خاندان کے 19 افراد طالبان کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔

افغان لبریشن موومنٹ نامی تنظیم نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے لیے طالبان کو ذمہ دار قرار دیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔

نجیب ننگیال نے لکھا کہ ’طالبان کی حکومت آنے کے بعد برات باختر اپنے گاؤں میں تھا مگر حکومت کے ظلم و ستم کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑکر ایران گیا۔ وہاں سے پاکستان کے شہر کراچی گیا۔ دھمکیاں ملنے کے بعد لورالائی منتقل ہوا جہاں وہ سبزی فروخت کرتا تھا۔‘

طالبان کے حامی صارفین نے سابق افغان کمانڈر برات کی ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں وہ ایک ایسی فوجی گاڑی کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں جس کے بونٹ پر ایک شخص کی لاش پڑی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ’کمانڈر برات اپنے مظالم کی وجہ سے مارے گئے۔‘سابق افغان حکومت میں فوج کے لیفٹیننٹ جنرل رہنے والے سمیع سادات نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر برات خان کی فوجی وردی میں تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع ملی ہے کہ میرے دوست اور وطن کے معزز کمانڈر برات آج صبح کوئٹہ پاکستان میں طالبان کے حملے میں مارے گئے۔

‘انہوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں موجود افغان سکیورٹی اور دفاعی اداروں کے اہلکاروں کی حفاظت پر توجہ دے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here