بلوچستان کے ساحلی شہر و سی پیک مرکز گوادر میںپولیس کی موجودگی میں ماہرِ لسانیات ، محقق و بلوچی ڈکشنری کے خالق سید ظہور شاہ ہاشمی کے مجسمے کوتوڑ نے کی کوشش کی گئی ۔
نامعلوم شخص مجسمے ک وپوری طرح توڑنے میں ناکام رہا ۔البتہ مجسمے کو نقصان پہنچاہے۔
اس سلسلے میں گوادر کے ایک مقامی میڈیا ہائوس “دی گوادر پوسٹ “سے وابستہ صحافی وڈائریکٹر نیوزجمیل قاسم نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پوسٹ میں عینی شایدین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک باریش شخص رکشے میں سوار ہوکر سید ہاشمی کے مجسمے کے قریب آیا ۔ان کے ہاتھ میں کلہاڑی تھا ، پولیس کی موجودگی میں اس شخص نے کلہاڑی کے ساتھ سید ہاشمی کے مجسمے پر ضرب لگانا شروع کر دیا ، جس کی وجہ سے سید ہاشمی مجسمے کے ناک اور چشمہ کو نقصان پہنچا ہے ۔
واضع رہے کہ سید ہاشمی کا مجسمہ پدی زرساحل (میرین ڈرائیو) پر نصب ہے جہاں گذشتہ دو ہفتوں میں بلوچ راجی مچی دھرنا جاری رہا۔جس سے کٹھ پتلی حکومت بلوچستان وعسکری حکام کی نیندین اڑ گئی تھیں اور انہوں نے طاقت وجبر کے تمام حربے استعمال کرکے دھرنا ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں مکمل ناکام رہے ۔
گذشتہ دنوں بی وائی سی نے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کےقریب ” سمبل آف بلوچ نسل کشی” کی تختی نصب کی تھی جس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا لیکن دوسرے دن اسے نامعلوم افراد نے مکمل طور پر توڑ دیا تھا۔
اب بلوچ راجی مچی دھرنا کاروان کی شکل میں بلوچستان بھر کی یاترا میں ہے جہاں پورا بلوچستان کاروان کے استقبال کیلئے امڈکر آرہا تو مقتدرحلقوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے جس کے ردعمل میں اب سید ہاشمی مجسمہ ، بلوچ نسل کشی کی علامتی تختی اور دیگربلوچ تشخص کے سمبلز ریاست کے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔