بلوچستان میں ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ 82 ہزار 583 افراد کی رجسٹرڈ ہونیکا دعویٰ

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

پاکستانی حکومت کے ایک دعوے کے مطابق بلوچستان میں ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ 82 ہزار 583 افرادرجسٹرڈ ہیں۔

حکومتی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ بلوچستان سمیت پاکستان کی موجودہ سمندری ماہی گیری کی صلاحیت 500 ملین ڈالر ہے جس کو 100 بلین ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے ۔

حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس وقت بلوچستان میں 6 لاکھ افراد ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں جس میں تقریبا 82 ہزار 583 رجسٹرڈ ہیں2023 میں 1 لاکھ 37 ہزار میٹرک ٹن مچھلی پکڑی گئی جسکی مالیت 105 ملین ڈالر ہے ۔اس وقت بلوچستان میں 36 کولڈ اسٹوریج پلانٹس ہیں۔

حکومتی دعوے کے مطابق کہ اگر بلوچستان میں فش پروسیسنگ پلانٹس قائم کی جائے تو بلوچستان کی ماہی گیری سے آمدنی دوگنی ہوسکتی ہے۔ ماہی گیری کی صنعت ساحلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 20 لاکھ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکتی ہے۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت نے سمندر میں پھنسے ماہی گیروں کو بروقت امداد فراہم کرنے کے لیے سمندری ایمبولینس سروس شروع کی ہے جس میں گرین بوٹس اور پٹرولنگ بوٹس کی فراہمی شامل ہے۔

دعوے میں کہا گیا کہ 2015 اور 2016 کے دوران ساحلی پٹی پر 8 ورکشاپس کی تعمیر اور کشتیوں کی مرمت پر تقریبا 247.149ملین کی لاگت آئی ہے۔ اس کے علاوہ ماڈل فش مارکیٹ پسنی منصوبہ 2021-2022 کے درمیان شروع ہوا جس پر تقریباً 10 ملین کی لاگت آئی۔2024 تا 25میں پی ایس ڈی پی کے تحت نئے منصوبے میں اتل اورسربندر کمپلیکس کا قیام، اور ڈی ڈی ایس سی اسکیم کی منظوری دی گئی ہے جس کی کل لاگت 50 ملین روپے ہیں اس کے علاوہ تازہ پانی کی ماہی گیری کی پیداوار بلوچستان میں 5.7 فیصد ہے۔ جو تقریباً 1 ہزار 563 میٹرک ٹن ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ بلوچستان میں 100 ڈیموں کے تعمیر ماہی گیری کی صنعت کی فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

واضع رہے کہ بحرہ بلوچ میں غیر قانونی فشنگ (ٹرالرنگ)اورسمندری حیات کی بےدریغ نسل کشی گذشتہ تین دہائیوں سے زائد حکومتی واسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں جاری ہے ۔جہاں ماہی گیر روز ان استحصالی گروہوں کے کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔

ماہی گیروں کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مراعات میسر نہیںہیں،غیر قانو نی فشنگ کے ذریعے بحرہ بلوچ کو مکمل بانجھ بنایا جارہا ہے ، مقامی ماہی گیر ایک وقت کی نان شبینہ سے محروم ہوتے جارہے ہیں اور حکومتی ادارے جعلی اعدادوشمار جاری کرکے بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے لیکن معروضی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں ۔

Share This Article
Leave a Comment