بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری صمند بلوچ نے بجٹ میں مادری زبانوں اور دیگر اداروں کے فنڈز کم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ےہ کہ موجودہ حکومت اور سیکرٹری خزانہ لسانیت کی بنیا پر اس طرح کا تعصب کر کے بلوچی اور براہوی سمیت دیگر زبانوں کے حوالے سے فنڈز میں کمی کی ہے اس فیصلے کو واپس لے کر مذکورہ اداروں کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے بصورت دیگر ہم احتجاج پر مجبور ہوں گے ۔
یہ بات انہوں نے جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کہی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی قوم کےلئے انکی مادری زبان بنیادی شناخت ہوتی ہے دنیا بھر میں مادری زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں قوم کی زبان ان سے چھین لی جائے ریاست کا یہی رویہ بلوچ قوم کے ساتھ جاری ہے اور قوم کو بنیادی حق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے سال 2024-25کے بجٹ میں بلوچی اور براہوی زبانوں کی ترویج کیلئے کام کرنے والے اداروں کی گرانٹ میں 70سے 90فیصد کمی کی گئی جبکہ کچھ اداروں کا بجٹ ختم کر دیا گیا۔
اسی طرح بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کی گرانٹ 5کروڑ سے کم کر کے 1کروڑ اور بلوچی اکیڈمی تربت کی گرانٹ میں90فیصد کٹوتی کی گئی بلو چی لبزانگی دیوان ، راسکو ادبی دیوان، براہوی ادبی سوسائٹی ،اور مہر دار کی گرانٹ بھی 70سے 95فیصد کم کی گئی یا مکمل ختم کر دی گی جبکہ حکومت نے کراچی آرٹس کونسل کے ایک پروگرام کیلئے 2کروڑ روپے دئے اور بلوچستان کے اداروں کا فنڈ 10سے 12کروڑ سے زیادہ نہیں جبکہ عزت اکیڈمی پنجگور اور گوادر کتب میلا کے سالانہ فنڈز ختم کئے ۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پشتو اور ہزارگی اکیڈمی کی گرانٹ میں ایضافہ کیا گیا جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں لیکن لسانی بنیاد پر بلوچی اور براہوی اداروں کی گرانٹ میں کمی قبول نہیں اور نہ ہی سیکرٹری خزانہ وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ اس سے بری الذمہ ہوسکتے ہیں اس لئے حکومت ان فیصلوں پر نظر ثانی کر کے فنڈز میں کی جانے والی کٹوتی ختم کر کے فنڈز جاری کرے بصورت دیگر ہم احتجاج پر مجبور ہوں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔