بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5450 دن ہو گے۔
مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی رہنماؤں علامہ مقصود علی ڈومکی ،حاجی غلام حسین اخلاقی اور کامران علی قمبرانی سمیت متعدد مرد و خواتین نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ کہا کہ بلآخر بلوچ شہدا کے مقدس خون اور جبری لاپتہ افراد کی عظیم، لازوال قربانیاں رنگ لے آئیں بلوچ قومی تحریک عالمی ایوانوں میں رسائی حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوگئی بلکہ بین الاقوامی برادری کو مقبوضہ بلوچستان پر توجہ مرکوز کرنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔
جبری لاپتہ افراد کے لیئے وی بی ایم پی کے تنظیم نے ریاستی سختیوں کے باوجود بلوچستان کی جنگی صورت حال پاکستانی ریاستی اداروں کی سفاکیت انسانی حقوق پامالیوں اور بلوچ فرزندانِ سیاسی کارکنان دانشور صحافی شاعر طلبا ڈاکٹرز خواتین بچوں کی جبری گمشدگیوں اور اُن کی مسخ شدہ لاشوں کی ویرانوں میں پھینکئے جانے کی واقعات ٹھوس شواہد دستاویزات تصاویر دیگر اہم اور مکمل تفصیلات فراہم کر کے ان کو بلوچستان میں مداخلت کا مطالبہ مطالبہ کیا ہے۔ اب بھی اقوام سے یہی امید ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ رپورٹ جاری کر کے بلوچستان میں جاری انسانی المیلے کو روکنے کیلیے اقدامات کرینگے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ 1948ء سے لیکر 1977 تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پر امن جدوجہد کرنے والوں کو قابو کرنے کے لیئے بلوچستان میں غیر مسلح نہتے شہریوں طلبا سیاسی ورکروں کے ساتھ ساتھ ان سیاسی لیڈروں کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا جو لوگ ہمدرد خیرخواہ تھے ۔پاکستانی فورسز نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو اُٹھا کر جبری لاپتہ کیا۔جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ۔ پاکستان کے تمام ادارے خواہ وہ میڈیا ہو عدلیہ یا پارلیمنٹ سب کے سب اس فوج اور خفیہ اداروں کے حواری ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کو مکمل ایک دشمن قوم کی حیثیت سے ظاہر کیا ہوا ہے۔