خون سے لتھڑا ہوا بلوچستان اور عید ۔۔۔ یاسر بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اپنے آبائی علاقہ بلوچستان میں چلا جاؤں وہاں اپنے دوستوں ، رشتہ داروں کے ساتھ عید کی خوشی مناؤں اس عید میں ہم سب ایک ساتھ اپنی عید منائیں تو پھر یہ سوچنے لگنے لگتا ہوں کہ کس کے ساتھ عید مناؤں؟ کیسا عید؟ اور عید ہمارے لئے کیا معنی رکھتا ہے ؟ جہاں جو رشتہ دار تھے وہ ہم سے بچھڑ گئے ہیں جو دوست تھے انہوں نے راستے میں ہم سے رخصت ہوئے ایسے کچھ دوست ہیں جو یاد آتے ہیں تو انسان پورا اندر سے ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور بلوچستان میں ہر گھر میں جاؤ تو  اس گھر کی مائیں، بہنیں، ہیں کوئی اپنی بھائیوں کے لئے اُداس بیٹی ہے کوئی ماں اپنی بیٹے کی واپسی کے منتظر ہے کوئی اپنے والدیں کے لئے اس طرح بلوچستان میں جہاں جاؤں تو وہاں کوئی نہ کوئی بچہ اپنے والد کے انتظار میں رو رہا ہے کوئی اپنے شہیدوں کے یادوں میں بے حد اداس بیٹا ہے۔

1948سے لے کر آج تک بلوچستان میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ہر بے گناہ لوگوں کو وہاں سرعام قتل کیا جاتا ہے کوئی اپنے لئیے مزدوری کر تا ہے تو اس کو مار دیا جاتا ہے کوئی اپنے گھر میں بیٹا ہے اسے بھی مار دیا جاتا ہے 72 سالوں سے بلوچستان میں کسی نے بھی تک عید کی خوشی نہیں دیکھی اگر دیکھی تو صرف لاشیں دیکھی ہیں خون کی ندیاں دیکھی ہیں بلوچستان میں کچھ ایسے گھر ہیں اُس گھر میں کچھ لوگ شہید ہوئے ہیں اور کچھ لاپتہ کردیں گئے ہیں کچھ ایسے گھر ہیں وہاں کوئی مرد رہا ہی نہیں سب کے سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے اسی طرح بلوچستان کے ایک علاقے مشکے میں ایک چھوٹے سی گاؤں گورجک وہاں ایک گھر کے شادی کے تقریب میں کچھ مصروف تھے کہ پاکستانی فوج وہاں حملہ کرکے کچھ لوگوں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اور ان میں سے دولہا شہید شاہنواز ، شہید اعجاز ، شہید آفتاب اور شہید باصد کو گولیوں کے نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا ہے ایسے بہت سے گھر ہیں جن کی مائیں آج تک خون کی آنسو رو رہی ہیں۔

بلوچستان ہر عید اسی طرح غموں اور اداسیوں کے ساتھ منائی جاتی ہے ہر عید ہمارے لئے ایک درد ناک عید ہوتا ہے ایسے قوم کس طرح عید منائی جاسکتی ہے جو اپنا سب کچھ کھو چکا ہو اور اپنے غلامی کے خلاف آج تک لڑ رہے ہیں کتنے ماؤں نے اپنے بچوں اپنے مادر وطن کے لئے قربان کردی ہے اگر میں ایسے ماؤں کے مثال دوں تو جیسے کہ شہید ناجد بلوچ کے والدہ بی بی زیبا بلوچ اپنے بیٹے کو قربان کرکے پھر فخر سے کہتی ہے کہ مجھے اور بھی چار بیٹے ہیں انہیں بھی وطن کے لئے قربان کر دیتی ہوں اور لمہ یاسمین بلوچ جو اپنے بیٹے شہید ریحان کو اپنے وطن کے لئے جو فدائی کے لئے تیار کر کے بیجھ دیتی ہے ایسی بہت سی مائیں جو اپنے بچوں کو غلامی خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کر چکی ہیں۔

دنیا بھر میں ہر سال کی عید کی تہوار میں مسلمان بہت خوشی سے مناتے ہیں مگر بلوچستان کے لوگوں کے لیے عید خوشی کے بجائے شدید دُکھ اور تکلیف لے کر آتی ہیں ہر کوئی اپنے بچوں کے غموں میں ڈھوبا ہوا ہے کوئی اگر چھٹیوں میں اپنے گھر جاتا ہے تو ان کو غائب کیا جاتا ہے اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ اس کی جرم کیا ہے کس وجہ سے اسے لاپتہ کیا جاتا ہے پھر اس کا لاش ملتا ہے یا تو اسے دماغی طور پر بیمار بنا دیتا ہے اس لئے کہ وہ اس وحشت میں اپنے حق کے لئے جدوجہد نہ کر سکتے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment