بلوچستان کے سورش زدہ ضلع مشکے کے رہائشی جبری لاپتہ چنگیز بلوچ کی بہن حفظہ بلوچ نے کہا ہے کہ عید پر بہنیں اپنے بھائیوں کا انتظار کرتی ہیں کہ وہ شہر سے کپڑے، منہدی اور مٹھائی لے کر آئیں گے، لیکن پچھلے 10 سال سے ہم نہیں جانتے کہ عید کی خوشیاں کیا ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے بھائی چنگیز بلوچ کو 11 جنوری 2014 کو خضدار سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا، اس کے بعد ہم نے کبھی خوشی نہیں منائی ہے اور ہمیں کپڑوں اور منہدی کا انتظار نہیں ،ہم پچھلے 10 سالوں سے صرف اپنے جبری لاپتہ بھائی چنگیز بلوچ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ بھائی کے ساتھ ہماری خوشیاں بھی لاپتہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر لاپتہ کرنے والوں کے سینے میں دل ہے اور ان کے بچے ہیں تو میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ خدارا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر میرے بھائی کو بازیاب کرایا جائے، ہمیں اور ہمارے والدین کو مزید تکلیف نہ دیں۔
دوسری جانب مشکے کے رہائشی اور 6 ستمبر 2022 کو خضدار سے تیسری بار جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے ممتاز بلوچ کی بھانجی بانڑی بلوچ نے کہا ہے کہ جیسے جیسے عید قریب آتی ہے، عام لوگوں کے گھر خوشیوں سے بھر جاتے ہیں اور ہمارے گھروں سے ماتم اور سسکیوں کی آوازیں آتی ہیں، عید کی صبح لوگ نئے کپڑے پہن کر ایک دوسرے کو گلے لگا کر عید مبارک کہتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو گلے لگا کر آنسو بہاتے ہیں۔ ممتاز کی ماں، میری نانی ایسے خوشی کے موقعوں پر ممتاز کو یاد کرکے بہت کمزور ہو جاتی ہے۔
انہوں نے اپیل کی کہ عید کے دن بلوچ وائس فار جسٹس، جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایکس پر کمپین چلائیں گے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے پورے بلوچستان میں احتجاجی ریلیاں منعقد کئے جائینگے، ریلیوں اور مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ہمارے پیاروں کی بازیابی کیلئے آواز بلند کریں۔