دنیا بھر میں متعدد کمپنیوں کی جانب سے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے، مگر بہت کم انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوسکی ہیں۔
ان ابتدائی ویکسینز میں سے ایک چین میں تیار ہورہی ہے اور ابتدائی انسانی آزمائش کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔
چینی کمپنی کین سینو بائیو لوجک کی جانب سے ویکسین کی ابتدائی آزمائش 108 صحت مند رضاکاروں پر کی گئئی تھی اور انہیں کم، میڈیم اور زیادہ 3 ڈوز دیئے گئے تھے۔
اس آزمائش میں زیادہ توجہ ویکسین کے محفوظ ہونے پر دی گئی تھی اور یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ مدافعتی ردعمل کیا ہوتا ہے۔
دی لانسیٹ میں یہ نتائج شائع ہوئے اور یہ پہلی ویکسین ہے جس کے نتائج کسی موقر طبی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔
اس سے قبل رواں ہفتے امریکا کی کمپنی موڈرینا نے بھی ابتدائی نتائج جاری کیے تھے مگر اس کا ڈیٹا یا تفصیلات کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کی گئی تھیں بلکہ ڈیٹا یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹس آف ہیلتھ کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
سینو بائیولوجک کی ویکسین بیجنگ انسٹیٹوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر تیار کی جارہی ہے اور موڈرینا کے ساتھ یہ پہلی ویکسین تھی جو مارچ کے وسط میں انسانی مرحلے میں داخل ہوئی تھی۔
اپریل میں چینی کمپنی نے ابتدائی ڈیٹا کے تجزیے کے بعد دوسرے مرحلے کے ٹرئلز کی جانب پیشرفت کی تھی۔
ابتدائی مرحلے میں زیادہ تر رضاکاروں یا ہر 5 میں سے 4 نے کچھ مضر اثرات جیسسے انجیکشن لگانے کے مقام پر تکلیف (54 فیصد نے اس کو رپورٹ کیا)، بخار (46 فیصد) اور سردرد (39 فیصد) کے بارے میں بتایا۔
محققین کے مطابق تاہم ویکسین لگنے کے ایک ماہ بعد 108 میں سے کسی رضاکار میں سنگین مضر اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔
انہوں نے بتایا کہ 9 افراد کو تیز بخار کا سامنا ہوا جن میں سے 5 کو ویکسین کا زیادہ ڈوز دیا گیا تھا مجموعی طور پر زیادہ ڈوز والے گروپ کے 17 فیصد افراد میں سخت مضر اثر دیکھا گیا۔
مگر یہ سب اثرات عارضی اور جلد دور ہونے والے تھے اور انجیکشن لگنے کے 2 دن بعد ان کی حالت بہتر ہوگئی۔
یہ ابتدائی تحقیق تھی جس میں ویکسین کے انسانوں پر اثرات کو توجہ دی گئی تھی مگر محققین نے اینٹی باڈی کی سطح کی جانچ پڑتال بھی کی گئی۔
اینٹی باڈیز وائرس کے خلاف لڑنے والے پروٹینز ہوتے ہیں جو مستقبل میں وائرل انفیکشنز کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
محققین نے 2 اقسام کی اینٹی باڈیز کو آزمایا تھا ایک وائرس کو دبانے میں جبکہ دوسری ناکارہ بنانے میں مدد دیتی ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ لوگوں کو کورونا وائرس کو بے اثر کرنے کے لیے کس حد تک دوسری قسم کی اینٹی باڈیز کی ضرورت ہے اور اسی لیے دنیا بھر میں سائنسدان کووڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں میں اینٹی باڈیز کے ردعمل پر کام کررہے ہیں جبکہ جانوروں پر بھی جربات کیے جارہے ہیں۔
چینی سائنسدانوں نے بتایا کہ نئے نوول کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والے اینٹی باڈیز ویکسین لگنے کے دن رضاکاروں میں صفر فیصد تھے اور 14 دن میں ان میں معتدل اضافہ ہوا جبکہ ویکسین لگنے کے 28 دن بعد ان کی سطح عروج پر پہنچ گئی۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کا ارتکاز ڈوز کی طاقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔
اسی طرح لگ بھگ تمام رضاکاروں میں وائرس کو دبانے والے اینٹی باڈیز کی سطح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔
محققین نے مدافعتی ردعمل کے ایک اور اہم جز ٹی سیلز کی بھی جانچ پڑتال کی جو وائرس کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ ویکسین لگنے کے 2 ہفتے بعد ٹی سیلز کی سطح عروج پر پہنچ گئی۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ ابھی واضح نہیں کہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز کی کتنی سطح انسانوں کو انفیکشن سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔
انسانوں سے قبل اس ویکسین کے جانوروں پر ٹرائل کے دوران دریافت کیا گیا کہ اس سے بندروں کو انفیکشن سے تحفظ ملا۔
اس وقت کمپنی نے کہا کہ اس نے بندروں کی ایک قسم جسے معدومیت کا کوئی خطرہ نہیں، اس سے تعلق رکھنے والے 8 بندروں کو ویکسین کی 2 مختلف مقدار انجیکشن کے ذریعے دی۔
اس کے 3 ہفتوں بعد انہیں وائرس کے سامنے لایا گیا لیکن ان میں انفیکشن نہیں ہوا۔
گزشتہ مہینے چین کے طبی حکام نے امید ظاہر کی تھی کہ کووڈ 19 سے تحفظ دینے والی ویکسین ستمبر تک ایمرجنسی استعمال جبکہ عام افراد کے لیے اگلے سال کے ابتدا میں دستیاب ہوسکتی ہے۔
چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے سربراہ گاﺅ فو نے چائنا گلوبل ٹیلیویڑن نیٹ ورک کو بتایا تھا کہ کہ ملک میں اس وقت ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ہیں اور ممکنہ طور پر وہ اس وبا کی دوسری لہر کے وقت تک دستیاب ہوسکتی ہیں۔
گاﺅ فو نے کہا ‘ہم ویکسین کی تیاری کے حوالے سے صف اول میں ہیں اور امکان ہے کہ ستمبر تک ایمرجنسی استعمال کے لیے ایک ویکسین تیار ہوچکی ہوگی، یہ نئی ویکسینز لوگوں کے کچھ خصوصی گروپس جیسے طبی ورکرز کے لیے استعمال کی جاسکیں گی’۔
ان کا کہنا تھا ‘ممکنہ طور پر عام افراد کے لیے ویکسین اگلے سال کی ابتدا میں دستیاب ہوگی، تاہم اس کا انحصار اس کی تیاری میں پیشرفت پر ہوگا’۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹوٹ آف مائیکرو بائیولوجی کے وائرلوجسٹ شائی یائی نے پریس بریفنگ میں کہا کہ انفلوائنز کے برعکس نئے نوول کورونا وائرس میں بہت تیزی سے جینیاتی تبدیلیاں نہیں آتیں اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ سیزنل فلو کی طرح معمول بن جائے گا۔
ان کے بقول ‘کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ نیا وائرس معمول کی زندگی کا حصہ بن جائے گا اور ہر سال انفلوائنزا وائرس کی طرح پھیلے گا، مگر ہمارا ماننا ہے کہ ایسا امکان بہت کم ہے، اس وقت ایسے شواہد موجود نہیں جن سے معلوم ہو کہ نئے کورونا وائرس بھی انفلوائنزا وائرس کی طرح بہت جلدی تبدیل ہوتا ہے’۔
انہوں نے یہ امکان بھی مسترد کیا کہ کووڈ 19 ایک دائمی مرض بن سکتا ہے، کیونکہ یہ نظام تنفس کی نالی میں زیادہ تر بڑھتا ہے، ایسا سارس اور مرس میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔