ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے جینوئن مسئلے کو متنازع بنا رہے ہیں،پریس کانفرنس

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزکے چیئر پرسن نصر اللہ بلوچ اور وائس چیئر پرسن ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وی بی ایم پی کے جاری احتجاجی کیمپ سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے سنجیدہ دیکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ گوادر حملے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سماجی رابطوں کی سائٹ سمیت میڈیا میں منفی کمپئین دیکھنے میں آئی ہے گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس حملے میں مارے جانے والے کریم جان کے حوالے سے کہا گیا کہ انکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا ہم واضع کرنا چاہتے ہیں کہ کریم جان کا نام وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت کسی بھی تنظیم کے لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل نہیں تھا بلکہ وہ 23 مئی 2022 کو جبری گمشدگی کا شکار ہوا تھا اور 31 جولائی 2022 کو کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) کی طرف سے ان پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام لگا کر انکی گرفتاری ظاہر کی تھی تاہم ان کی جبری گمشدگی کے ناقابل تردید شواہد کی وجہ سے عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بجا طور پر بری کردیا اور 17 اگست 2022 کو عدالت کے حکم پر کریم جان کو رہا کیاگیا تھا کریم جان کے رہائی کے بعد انکے اہلخانہ سمیت کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ لاپتہ ہے اور نہ ہی کسی تنظیم کے لاپتہ افراد کی فہرست میں اسکا نام شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے ریاست اور ریاستی اداروں کی منفی پروپیگنڈے کی حقیقت سرفراز بنگلزئی کے انٹرویو سے بھی عیاں ہوتی ہے۔ سرفراز بنگلزئی 15 سال بلوچ مزحمتی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہا تھا اب اس نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے۔ سلیم صحافی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو فراری کیمپوں اور افغانستان میں ہیں،انکا نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں تو سلیم صحافی اس سے سوال کرتا ہے کہ ایک ایسے شخص کا نام بتا دیں جو فراری کیمپ میں ہے یا پھر افغانستان میں ہے تو سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ سفیر بلوچ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اسکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ سفیر بلوچ لاپتہ ہے اور نہ ہی اسکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے بلکہ سفیر بلوچ کا بھائی جمیل سرپرہ لاپتہ ہے اور جمیل سرپرہ کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرفراز بنگلزئی 15 سال بلوچ مزحمتی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہا اور افغانستان بھی چلا گیا تھا لیکن دیکھے وہ ایک بھی ایسے شخص کا نام ثابت نہیں کرسکا کہ وہ فراری کیمپ میں ہوں یا پھر وہ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہو اور اسکا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو منفی پروپیگنڈے کے زریعے خراب اور پیجیدہ بنانے کیلیے سماجی رابطوں کی سائٹ اور میڈیا کو استعمال کرتے آرہے ہیں اس لیے ہم صحافی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومتی موقف کے ساتھ ہمارے موقف کو بھی کوریج دیا جائے تاکہ اصل حقیقت لوگوں کے سامنے عیاں ہو ۔

انہوںنے کہا کہ ہم آپ لوگوں کی توسط سے ریاست اور ریاستی اداروں کے سربراہوں کو کہنا چاہتے ہیں کہ جس گھر سے کوئی بندہ جبری لاپتہ ہو وہ خاندان زندگی بھر اپنے لاپتہ پیارے کو بھول نہیں سکتے یہی وجہ ہے کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کے لیے کئی سالوں سے متوتر احتجاج کرتے آرہے ہیں اور انکے احتجاجوں میں شدید بھی آرہی ہے اس لیے ریاست اور ریاستی اداروں کے سربراہوں کو اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے غلط بیانی اور منفی پروپیگننڈے سے گریز کرنا چاہیے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے فوری عملی اقدامات اٹھا کر بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے جو بےچینی پائی جاتی ہے اسے ختم کرے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل میں ہی ملکی سلامتی ہے۔

ماما قدیر و نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ایک شخص کی جبری گمشدگی کی وجہ سے اسکا خاندان ذہنی کرب و اذیت سمیت بہت سے مشکلات کا شکار ہوتا ہے اور بلوچستان میں لوگ کئی کئی سالوں سے لاپتہ ہے انکے خاندان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا اس دنیا میں نہیں ہے جو لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے ایک بہت بڑی اذیت ہے اس لیے ہم صوبائی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کے بنیاد پر دیکھتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کو فیک انکاونٹر میں قتل کرنے کے سلسلسے کی روک تھام اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

انہوںنے کہا کہ اگربلوچستان حکومت نے لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے سنجیدیگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو تنظیمی سطح پر عید کے بعد احتجاجی شڈول کے پہلے مرحلے میں بلوچستان اسمبلی کے ہر اجلاس کے دن بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا اور بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا عید کے بعد تنظیمی سطح پر ہونے والے احتجاجی شڈول کے حوالے سے بلوچستان کے تمام سیاسی پارٹیوں اور طلباء تنظیموں سے ملاقاتیں بھی کی جائے گی اور احتجاجی شڈول کے حوالے سے بلوچستان کے سیاسی پارٹیوں، طلباء تنظیموں اور سول سوسائٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوئٹہ میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جائے گا تاکہ تنظیمی سطح پر عید کے بعد ہونے والے احتجاجی شڈول کو بلوچستان کے تمام نمائندہ پارٹیوں اور تنظیموں کی حمایت حاصل ہوں ۔

Share This Article
Leave a Comment