بولان و ملحقہ علاقوں میں فوجی جارحیت سے انسانی بحران جنم لینے کا خدشہ ہے، بی این ایم

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کے ترجمان نے بولان اور ملحقہ علاقوں سبی اور ہرنائی میں فوج کشی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور مہذب ممالک کی بلوچستان میں فوجی جارحیت پر خاموشی نے ریاست پاکستان کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا دے۔فوجی کارروائیوں کے ذریعے علاقوں کے داخلے و خارجی راستوں کو سیل کرکے لوگوں کو محصور ،خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ترجمان نے کہا محصور آبادیوں کی آمد و رفت اور اشیائے خورد و نوش لانے پرمکمل پابندی ہے ،عام آبادیوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے کے ذریعے بے دریغ شیلنگ اور بمباری کی جارہی ہے ،شیلنگ اوربمباری سے عام آبادیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

’’فوجی محاصرہ اور آمد و رفت پرپابندی کی وجہ سے ہمیں مکمل حقائق تک رسائی اور صورتحال جاننے میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا پاکستانی فوج نے بولان سے متصل سبی کے علاقے شابان میں ’علیان ‘ نامی شخص کے گھر کو محاصرے میں لے کر خواتین اور بچوں کو اپنے قید میں رکھا ہے۔ ڈھاڈر کے نواحی علاقے میں پاکستان فوج نے گلہ بان مالئے اور ان کے رشتہ داروں کے خواتین و بچوں کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا ہے جبکہ ان تمام لوگوں کے گھروں کو بھی نذرآتش کردیا گیا ہے۔سانگان کے علاقوں میں جنگلات نذرآتش کردیے گئے ہیں۔

ترجمان نے کہا دس دن سے جاری فوج کشی میں پاکستانی فوج کی ظلم و زیادتیوں سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ،فوجی اہلکار گرفتار خواتین کو جنگی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔لوگوں کے پاس خوراک کے ذخیرے ختم ہوچکے ہیں ،زخمی علاج کے لیے تڑپ رہے ہیں جبکہ جبری لاپتہ افراد اور فوجی تشدد سے متاثرہ لوگوں کی اصل تعداد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ بولان اور ملحقہ علاقوں کے عوام مویشی اور زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں لیکن ریاست نے مال و مویشیوں کو اپنے قبضے میں لے کر لوگوں کو اس سے بھی محروم کردیا ہے۔

ترجمان نے کہا پاکستان بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے ، نہتے لوگوں کے خلاف جارحیت اجتماعی سزا کی حکمت عملی کاحصہ ہے تاکہ بلوچ قوم مزاحمت اور تحریک سے دست بردار ہو۔

Share This Article
Leave a Comment