شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ – قسط۔9

ایڈمن
ایڈمن
28 Min Read

شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔9
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(نویں قسط)

2002ء میں آپ نے سقوط بولان لکھی اس مضمون کے پڑھنے سے آپ کا نظریہ نیشنل ازم اور بلوچ قومی آزادی کی فکر واضح ہوجاتی ہے۔ مضمون پڑھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ضمیر فروش ریاست کے ہاتھوں پوری قوم کا سودا لگا چکے تھے۔روزنامہ انتخاب میں شائع ہونے والا یہ مضمون بلوچ قومی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں بلوچستان نیشنل موومنٹ(BNM) کے لیڈروں کا مکروہ چہرہ فاش کیا گیا ہے۔اس مضمون میں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نے ان نام نہاد عناصر سے اپنی راہ الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔جس کا عملی نظارہ قوم نے ایک سال بعد اس جدید دور میں پہلا قومی انقلابی جماعت ”بلوچ نیشنل موومنٹ ”(BNM)کے قیام کی صورت میں دیکھ لیا۔

سقوطِ بولان:۔
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 
سقوط بولان کے ساتھ ساتھ جواب شکوہ بھی نظر سے گزرے حقائق کو رد کرتا یا جھٹلانا واقعی ناممکن ہوتا ہے اخلاقی جرات کا تقاضا ہے کہ ہر باضمیر فرد جو سچائی کا پیرو کار خود کو گردانتا ہوسچائی کے سانے سرتسلیم خم کرلے حق کی خاطر منصور کی طرح سولی چڑھ جائے یا سچ کی خاطر سقراط بن کرزہر کا پیالہ نوش جان کرلے مگر منافقت و فریب کا پیکر بن کر سورج کی روشنی کو ہتھیلی سے چھپانے کی بے سود جتن سے گریز کرے۔
سقوط بولان سے چوڑیوں کی کھنگ اور پازیب کی جھنکار کی گونج جب میرے کانوں پر پڑی جیسے امراؤ جان ادا بے بسی کے عالم میں ادا فروشی کے کھوٹے پر رقصاں ہو۔ اس کیفیت کو ضبط کرنا محال سہی لیکن کف افسوس مل کر بھی تسکین روح میسر نہیں آتا۔ کبھی کبھار انسان کو اپنے ضمیر کی صدا کو زبان بنا کر قلم کی نوک سے لب کشائی کا ہنر آزمانا پڑتا ہے شاید ابہام کو طشت ازبام کر کے صداقت کی شعاعوں سے ماحول کو منور کرنا ممکن ہوسکے تو ماضی کے دریچوں کو تکتے ہی عجیب منظر کی کربنا کیاں برسوں کی وفاداری کو پل بھر میں بے وفائی کی صورت دے، بڑااعصاب شکن ہوتا ہے۔


جب عہد وپیمان کے بعد1998ء میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے مرکزی کونسل سیشن کا جشن تھم چکا تو طیب اصغر کراچی چلے گئے تو چند روز بعد میرا وجود بھی کراچی واردہوا۔ان سے ملنے جاگیردار ہوٹل چلا گیا، تو باتوں باتوں میں وہ مجھ سے ہمدرانہ انداز میں مخاطب ہوکے کہنے لگے غلام محمد ہم نے تو زندگی کے بہت مزے لوٹے ہر لذت امروز سے بہرہ مند ہوئے ایک تم ہی ہو کہ بے گھر، بھوکے اورپریشان حال ہو، میں تمہاری طرح پاگل نہیں بنوں گا، جب تک بلوچستان نیشنل موومنٹ کی گاڑی چلتی ہے تو ہم شان سے ڈرائیونگ کرتے رہیں گے جس موڑ پر رک جائے تو خدا حافظ کہہ کر چابی دوستوں کے حوالے کریں گے، جب خلوص کا یہ روپ دیکھا تو مجھے گفتار فیض یاد آگیا جو کچھ میرے اور کچھ فیض کے جذبات کی آمیزش کی رنگ میں ڈھلا۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ 
دردبے فیض سے لذت تو خوب نہ مانگ۔
میں مرگ وزیست کے نظریاتی رشتے کے تقدس کی اس قدر پامالی پر حیران رہ گیا اس صدمہ کا احساس لئے طیب اصغر کے شفیقانہ لہجے میں چھپی قہر کی شدت کو پرکھ ہی رہا تھا پھر بولے کہ ایک دوست کے ہاں کھانے پر جانا ہے مغرب و عشاء کا درمیانی وقت تھا اچانک کمرے میں ایک اجنبی شخص نمودار ہوا طیب اصغر نے میراتعارف ان سے کیا مجھ سے انکی پہچان کرائی یہ ہے کرنل ایوب صاحب پروٹوکول آفیسر مجھے اس رابطہ پر حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ میں اس بازگشت کی خبر چند دوستوں سے پہلے سن چکا تھا مگر یقین نہ تھا جب اپنی آنکھوں سے اس آشنائی کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ دام اسیری کا ماہر یہی ملا ہے۔ جودانہ ڈال کر ضمیروں کے سوداگروں کی دہلیز ضمیر فروشوں کی رسائی کا زینہ ہے خاکم بدھن کہیں ہمارا سیاسی زرال اسی مراسم کا شاخسانہ نہ ہو پھر ہم تینوں نیچے چل دیئے سوچا کہ چلو اہل خرد کا کچھ تماشہ ہم بھی دیکھیں گے سڑک کے کنارے ایک خوبصورت کار کھڑی تھی جب میں طیب اصغر کے بعد کار کی پچھلی نشست پر بیٹھ گیا تو سندھی ٹوپی پہنے ایک باریش شخص کو اگلی نشست پر پایا تو اس حضرت کا بھی تعارف ہوا تو ذہن میں ماضی کے دھندلے نقوش اتر آئے تہنجو ساتھی مہنجو سا تھی جونہ جانے نذیر عباسی کی آخری خواہش کا جنازہ اٹھائے ترک دنیا کر گئے کب سے۔


کارروانہ ہوئی مختصر فاصلہ طے کرنے کے بعد (پرل کانٹرکانٹ) پر رک گئی تو ہم سب اترے لفٹ کے ذریع اوپر چلے ایک مخصوص انتظار گاہ پر پہنچے اورہم سب تشریف فرما ہوگئے۔ اچانک ایک خوش پوش سرخ و سفید رنگت کا نوجوان جوبالوں کے اسٹائل سے (جوان) لگ رہا تھا ایک ہاتھ میں جام لئے ہمارے قریب آیا ہمیں آفردی اور ہم سب نے معذرت کرلی۔ سائیں نے گفتگو چھیٹری سخن وسیاست دوران یہ گوہر افشانی میں مگن رہے، سائیں نے کہاکہ صوفی ازم ہی حقیقی سندھی قوم پرستی ہے میں نے اس لئے صوفیانہ بھیس بدلی ہے کیونکہ صوفیانہ خصلتوں کو اپنانے سے قلب وروح دونوں کوپاکیزگی ملتی ہے سبحان اللہ نو سوچو ہے کھا کر بلی جج کو چلی ملک میں لبرلزم کے رجحانات کے فروغ اور اصلاحات کی نوید بھی تھی جو آخر کار جنرل مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کے سراب کی صورت میں وقوع پذیر ہوا کرنل صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ آپ بھی کچھ کہیں تو میں نے کہاکہ جی میں صرف سنتا ہوں کرنل جو این ایس ایف کے ترقی پسندانہ دوست سیاست کے فارغ التحصیل ہیں سخنوری کا دور ختم ہوااور ہم طعام گاہ چلے گئے وہ پلیٹ چھری کانٹا چمچہ لئے مختلف قسم کے کھانوں کو نوش جان کرنے لگے میں نے ایک پلیٹ میں تھوڑے سے چاول اور بھنی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا ڈال کر اپنی اوقات میں رہنا ہی مناسب سمجھا رعنائیوں سے نکل کر جاگیردارانہ نظام کی طرح بوسیدہ وبدنما جاگیردار ہوٹل پہنچے یوں لگا جیسے ”اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں“۔


حوادث و اتفاق کا سلسلہ ستم درستم میرا پیچھا کرتا گیا مجھے سدھانے کا عمل جاری تھا اس ضمن میں ایک دن کوئٹہ میں ”مولائی“ صاحب کو بھی زحمت اٹھانی پڑی مجھ سے کہاکہ چند سیاسی معاملات پر گفتگو کرنی ہے تو چل دیئے گاڑی میں بیٹھا تو طیب اکبر براجمان تھے گاڑی چھاؤنی کی طرف رینگتی گئی پل بھر میں کیفے چائنا منزل کی صورت نمودار ہوا اندر داخل ہوئے تو ٹیبل سجے تھے اہتمام معمول سے مختلف تھا ایک نوجوان جو بلوچ تھا مانوس سا چہرہ تھا مگر یادنہیں تھا میزبانی کے فرائض انجام دے رہا تھا ہم ٹیبل کے گرد بیٹھے تو سوپ کے بڑے پیالے پیش کئے گئے سوپ پینا شروع کیا تو ”طیب اکبر“ یوں گویا ہوئے کہ بلوچ قوم اور بلوچستان کے لئے آپ جو جذبہ رکھتے ہیں ہمارے بھی یہی ارمان ہیں لیکن ریاست بہت طاقتور ہے اور ہماری قوت انتہائی کمزور ان سے بیر (دشمنی) ہم مول نہیں لے سکتے۔ یہ بڑے ظالم ہوتے ہیں ان کی مرضی ومنشاء کے بغیر کوئی کچھ کر ہی نہیں سکتا سٹیبلشمنٹ کو چھیڑنے سے ہمیں احتیاط کرنا ہوگی۔ کیفے چائنا کا ماحول خوشگوار تھا خوفزدگی کی کوئی وجہ نہ تھی میں سکون کے ساتھ سوپ پیتا رہا اور بات کو سنتا رہا ”طیب اکبر“ اور مولائی بھانپ گئے ان کی حکایتیں مجھ پر کارگار ثابت نہیں ہورہیں تو چلنے کا ارادہ کیا یوں بزم دوستاں کسی نتیجے پر پہنچے بغیر برخاست ہوگئی۔ جب باہر نکلے تو میں نے مولائی کا ہاتھ پکڑ کر کہاکہ آپ سے تو یہ امید نہ تھی جب میں بارہ برس کا تھا تو مجھے قومی غلامی سے نفرت اور بلوچ قوم کی آزادی کا در س دیا گیاجس کا میں ہمیشہ ورد کیا کرتاہوں اب کے تیور کسی پنجابی کے ہوتے تو کوئی قباحت نہیں تھی بلوچ قومی جدوجہد سے انحراف اور غداری سکھانے کی ملازمت آپ میں سے کسی کو شبہ نہیں دیتا ”ہم تو سمجھے تھے کہ تو بے خوددرخشاں بے حیات“”قصہ مختصر احساس تجسس کا ابھار ہے کہ اس معجزہ کو بلا سبب نہیں مانتا کبھی یورپ پر کمیونزم سے اوجھل رہتے ہوئے ہمارے آشیانہ کو جلانے کیلئے پتوں کو ہوا دینے لگا ہو، گوادر پورٹ کی تعمیر ہو ساحل بلوچ سے لے کر سینٹرل ایشیاء تک رسائی اور خطے کے تیل و گیس ودیگر معدنی ذخائر پر دسترس حاصل کرنے کا منصوبہ سرمایہ دارنہ نظام کی وسعت پذیری کے امکانات کو صداقت کا روپ دینے کیلئے عالمی قوتوں کے مابین حصہ داری کے مسئلہ پر کشمکش بلوچ معاشرہ اور بلوچ قومی سیاست میں نئی صف بندی اثر انداز نہ ہوتا کیونکر ممکن نہ ہو بلوچستان میں اپنے مفادات ومنشاء کے منافی پیش رفت کی راہ میں رخنہ اندازی کے حربوں کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے اپنے پر وردہ مہروں کو حق نمک ادا کرنے کیلئے متحرک نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔
طیب اصغر اور میرنادر کی حکمت و منطق جو حواس باختگی کے زمرے میں آتی ہے عاری سنگباری جو انضمام و اتفاق کے سیاسی اصولوں، مقاصد ہم آہنگی اور قومی شرائط سے بے نیاز انضمام کی وکالت کرکے سب مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں شہید وطن فدا احمد بلوچ اور بلوچستان کے بے شمار عظیم شہدا کی قربانیوں کو کیوں پاؤں تلے روند رہے ہیں چند ٹکے، ٹھیکے، وزارت کی کرسی کی خاطر حکم حاکم پر ننگ وطن کو پامال کرنا کیسی قوم دوستی ہے شہید وطن کی شہادت کے بعد آپ کو جو وراثت ملی تو کیا گل کھلائے آپ نے شہید وطن کے تمام سیاسی اقدار کو پامال کر کے پارٹی کے سیاسی فکری اور عملی کردار کو رفتہ رفتہ نیست و نابود کر کے صرف مفاد پرستی اور خود غرضی غیر سیاسی پن روایتی طرز سیاست کے جاہلانہ رجحانات کو رواج دیکر اپنے موقع پرستانہ فطرت کے مطابق منحرف ہوگئے بزرگوں نے سچ کہا تھا کیچ کا ثبوت مٹی کے منڈھیر کی مٹی کا وہ ٹکڑا ہے جو نشانے تک پہنچنے سے پہلے بیرونی دباؤ کی شدت سے راستے ہی میں بکھر کر ریزہ رہزہ ہوجا تا ہے طیب اصغر میں بے گھر بھوکا پریشان حال سہی آپ نے زندگی کی پرتعیش لذتوں کی فردوس سے آشنائی کی ہے اور ہم لاکھوں بے گھر بھوکے پریشان حال بلوچ قوم کے مفلوک الحال فرزندوں سے مماثلت تو رکھتے ہیں۔یہی غینمت ہے ہم جب راتوں کو اپنے سوئے ہوئے معصوم بچوں کو خالی پیٹ بھوکا سویا ہوا پاتے ہیں تو آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں ذات بہک جانے کو اکساتی ہے مگر ہماری ذات پر ضمیر حاوی رہتا ہے جب انسان پر ذات حاوی ہوجائے تو ضمیر کا قتل لمحوں میں ہوجاتا ہے ہم نے اپنی ذات اپنے ضمیر پرحاوی ہونے نہیں دی یہ الگ بات ہے کہ آپ کا تخیل مختلف ہے شاید ملا فاضل کی شرارت کی طرح بہکاؤے میں آگئے۔ جب ملا عزت پنجگور سے مہرک کی خوبصورتی کا تذکرہ کیا تو ملا عزت ملا فاضل کی زبانی مہرک سے صفات بنکر شیدا ئی ہوا اور آج تک ایک یاد بن کر پنجگور میں عزت اکیڈمی منتقل ہوئے۔بلوچ قوم وطن پر شاید ہماری شیدائی بھی کسی شرارت کا نیتجہ ہو دکھ تو اس بات پر ہے کہ سرخیل اپنے ہی قول سے مکر گئے، ہمیں خدا ملا نہ وصال صنم اس شیدائی میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کی راکھ کے ڈھیر کو پھونکتے رہیں گے شاید کوئی دبی چنگاری دھکتا ہوا شعلے بن جائے۔ 2002ء میں آپ نے سقوطِ بولان نوشتہ کی جس میں 1998ء میں ہونے والی اس ساز بازکا عوام کے سامنے پردہ فاش کیا جہاں آپ کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ پارٹی لیڈرشپ سٹبلشمنٹ کے ساتھ مکمل طور پہ قوم کا سودا کرچکا ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے 1998ء کے بعد بار ہا کوشش کرتے ہیں کہ خود کو سابقہ انقلابی کہنے والے یہ منحر فین واپس بلوچ قومی دھار ے میں شامل ہو کے آزادی کی جدوجہد کے لیے قوم کی رہنمائی کریں مگر یہ ممکن نہیں ہوا۔

2002ء کا کونسل سیشن اور پارلیمانی انتخابات:۔
ڈاکٹر مالک، حئی ااور ان کے ہمنواء ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ ہم پارلیمنٹ کو ایک مشق اور حربے کے طورپر استعمال کرینگے لیکن اب آپ کا یہ یقین پختہ ہوچکا تھا کہ یہ افراد نظریہ آزادی سے کوسوں دور جاچکے ہیں اسی لیے آپ2000ء کے کونسل سیشن میں کسی عہدے کے لیے امیدوار نہیں بنے تھے۔ 2002ء کے سیشن میں آپ واضح فیصلہ کرتے ہیں کہ اب پارٹی کو غیر پارلیمانی سیاست کی جانب لے جائینگے۔آپ اپنے ساتھیوں اورخیرخواہ نظر یاتی ساتھیوں سے صلاح ومشورہ کرتے ہیں۔دوسری جانب ڈاکٹرمالک ودیگر کو بخوبی اسکا علم ہوجاتاہے اورآپ عبد الحئی کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑتے ہیں۔
اسی کونسل سیشن میں واضع الفاظ میں آپ نے اپنے موقف اور پارٹی بننے کی اصل وجہ اور بنیادی نظریہ کارکنان کے سامنے رکھا۔آپ نے یہ کہا کہ جب پارٹی بنائی گئی تو اس وقت پارٹی میں موجود تمام صاحبان نے اس بات کی حامی بھر لی تھی کہ ہم بلوچ قومی آزادی کے حصول کے لیے غیر پارلیمانی طرزِ سیاست اختیار کرینگے لیکن شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کے بعد جب پارٹی کی کنجیاں آپ لوگوں کے ہاتھ لگی تو آپ لوگوں نے پارٹی کی اصل روح مسخ کردی۔جس کی وجہ سے آج ہمارے پاس کارکنان کم مراعات کے شوقین عناصر زیادہ ہیں۔


2002 ء کے پاکستانی پارلیمانی الیکشن میں آپ نے عملی طور پر یہ ثابت بھی کیا جہاں آپ نے پارٹی کے پارلیمانی فیصلے سے نہ صرف لا تعلقی کا عملی مظاہرہ کیا بلکہ عوامی سطح پہ اس کی مخالفت بھی کی۔اس دوران یہ سیاسی مداری مراعاتی سیاست کے لیے آپ چیئر مین کو منانے کی کوشش کرتے رہے۔لیکن آپ اپنے موقف اور نظریہ پر ثابت قدم رہ کر اس نوآبادیاتی نظام اور اس نظام کو دوام بخشنے والوں کی مخالفت کرتے رہے۔آپ شہید اور آپ کے دیگر نظریاتی دوستوں کا الیکشن سے لاتعلقی اور مخالفت کی وجہ سے بلوچستان نیشنل موومنٹ (حئی گروپ) الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوا، اور مکران میں ڈاکٹر مالک کو بھی اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ الیکشن کے نتائج کے بعد شکست خوردہ مفاداتی کمپنی نے آپ چیئرمین کے خلاف پروپیگنڈہ اور سازشیں تیز کیے۔اس دوران پارلیمنٹ پرست ٹولے نے آپ چیئرمین کے خلاف کئی محاذ کھولیں، کبھی آپ شہید کو ریاستی ایجنٹ،کبھی میر محمد علی کاحامی تو کبھی الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی کا ٹکٹ نہ ملنے جیسے الزامات کی بوجھاڑ کرتے رہے۔ لیکن آپ چیئرمین ان الزامات کی پرواہ کیے بغیر قوم کو نظریاتی اور فکری حوالے سے مسلح کرنے کا کام مزید تیز کردیا۔


مجھے یاد ہے جب ہم دوستوں نے آپ چیئرمین کی مخلص قیادت میں بلوچستان نیشنل موومنٹ ”مندزون“جو اان عناصرکے مراعاتی اور پارلیمانی سیاست کی وجہ سے1997ء سے غیر فعال چلا آرہا تھا ازسر نو لوگوں کو منظم کررہے تھے۔تو اچانک ایک دن ڈاکٹرمالک اورڈاکٹر یٰسین چند ایک دیگر لوگوں کے ساتھ چیئرمین غلامحمد بلوچ سے ملنے آئے۔لیکن اکثر دوستوں نے ان کے ساتھ ملنے کو وقت کو ضیاع قرار دیا اور چیئرمین سے بھی انہوں نے کہا کہ آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کے وقت صائع مت کیجیے۔لیکن آپ چیئر مین نے دوستوں کو مناتے ہوئے ملاقات کیلئے راضی کرلیا۔ دیوان میں کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی جہاں دیوان شروع ہوتے ہی ایک دوست نے ڈاکٹرمالک اور اس کے ہمنواؤں سے سوال کیا۔آپ لوگ یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے ہو کہ چیئرمین کی ناراضگی کی وجہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کا نہ ملنا ہے۔ بلفرض ہم یہ مان بھی لیں تو آپ لوگوں نے پھر کیوں چیئرمین کو ٹکٹ نہیں دیا، جس کا چیئرمین بھی سیاسی حقدار ہے۔ لیکن ہم چیئرمین کو پچپن سے اچھی طرح جانتے اور واقف ہیں اور آپ لوگ بھی اچھی طرح اس بات سے واقف ہو کہ چیئرمین نے شروع دن سے پاکستانی پارلیمنٹ اور اداروں کو بلوچ قوم کے لیے زہرِ قاتل قراردیا ہے تو کیسے اور کس بنیاد پہ آپ لوگ یہ من گھڑت باتیں کرتے ہو کہ چیئرمین کا پارٹی سے اختلاف کی وجہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ ہی ہے۔ڈاکٹر مالک کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا اس لیے اس نے آنکھیں جھکالی لیکن ڈاکٹر یٰسین کہنے لگا نہیں چیئرمین کی ناراضگی کی وجہ پارلیمنٹ کی نشست نہیں دراصل چیئرمین جوان خون کا مالک ہے اور وہ بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ کے لیے مسلح جدوجہد کرنا چاہتا ہے اسی لیے وہ اکثر یہ کہتا ہے کہ ہمیں پہاڑوں کو اپنا مورچہ بنانا چاہیے لیکن ہم میں اتنی سکت نہیں اور نہ ہی اب عمر ہمیں اس بات کی اجازت دے سکتی ہے لہذا ہم پاکستانی اداروں میں رہتے ہوئے سیاست کرنا چاہتے ہیں جو چیئرمین کے خیال کے مطابق بلوچ قوم کے مفادات کے منافی ہے۔


دیوان میں بیٹھے ایک بزرگ دوست نے ڈاکٹر یٰسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم جو کہہ رہے ہو یہی باتیں 1987ء اور1988ء میں غوث بخش بیزنجو نے آپ لوگوں سے حاجی جلال خان کے دیوان خانے میں ایک میٹینگ دوران کہی تھی جب اس دوران آپ لوگ بھی بلوچ قوم کی بقاء اور آزادی کے لیے وہی باتیں کررہے تھے جو آج غلام محمد بلوچ کررہا ہے۔اور بزنجو نے آپ لوگوں کو جو جواب دیا تھا آج وہی باتیں میں آپ کے منہ سے سن رہا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں کر آپ لوگوں کی سوچ بدل گئی اس وقت آپ لوگ غوث بزنجو کو بابائے مزاکرات اور قوم کا سوداگر کہہ رہے تھے۔آج آپ لوگ بذات، خود اسی عمل کا حصہ ہو۔اس کامطلب یہ ہوا کہ آپ لوگ بھی ریاست کے ساتھ بلوچ قوم کا سودا لگا چکے ہو۔یٰسین اس دن کو یاد کرو جب غوث بخش نے کہا تھا کہ آپ لوگ جوان ہو،بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نظریاتی سیاسی پیدا وار ہو، جس تنظیم کے جوشیلے جوانوں نے پولینگ بوتھ اکھاڑ دیئے تھے اور پلیٹ فارم پہ یہی کہتے چلے آرہے تھے کہ ہمیں ووٹ نہیں خون چاہیے۔یٰسین،غوث بخش کو تو ہم نے اس وقت نہیں پہچانا شاید ہماری آنکھوں پہ سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہی غوث بخش جو بلوچ قوم کی آزادی کی باتیں کرتے نہیں تھکتا تھالیکن عمل کے وقت جب آغا عبدلکریم خان نے پاکستان کے خلاف عملی قدم اٹھایا تو غوث بخش اس عمل کا حصہ ہی نہیں بنا جس سے اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ درپردہ غوث بخش نے قوم کو اغیار کے ہاتھوں فروخت کرڈالا تھا اور آنے والے دنوں میں غوث بخش کے کردار کو دیکھتے ہوئے کامل یقین بھی ہوتا ہے کہ غوث بخش قوم کو دھوکہ دینے والا ایک کارندہ تھا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ اور وہی عمل آج تم لوگ کررہے ہو لیکن یاد رکھنا تاریخ بہت بے رحم ہے۔

آپ حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے کہیں قرنوں سے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں پر افسوس کہ آج آپ لوگ پارٹی کے نظریے کو مسخ کرچکے ہو وہ نظریہ جہاں شہید فدا احمد بلوچ نے کہا تھا کہ بلوچ قوم کامقصد پاکستانی اداروں میں جانے سے حل نہیں ہوگا بلکہ یہ ادارے قوم کے لیے زہر، قاتل ثابت ہونگے اور آج آپ لوگ شہید کامریڈ فدا بلوچ کے نظریہ اورفلسفہ کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی مراعات کے لیے قوم اور وطن کا سودا لگا رہے ہو اور اس کے ساتھ ساتھ قوم میں انتشار ڈالنے کے اسباب مہیاء کررہے ہو۔ اپنے جوشیلے باتوں کو پاکستانی پارلیمنٹ اور پاکستانی مفادات کی تکمیل کی بجائے آج اگر بلوچ قوم کے لیے استعمال کرتے تو یہ قوم آپ لوگوں کو عرش پہ پہنچاتا لیکن افسوس کہ آپ لوگ اپنا ضمیر ردی کی ٹھوکری میں پھینک کر مقصد کوبُھلاچکے ہو اور اپنی انا کی تسکین کے لیے آج چیئرمین غلام محمد کو پہاڑوں کی سیاست کرنے پر طنز کا نشانہ بنارہے ہو۔ہمیں ڈاکٹر کبیر(حئی) سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ وہ تو بیچارے 1970 ء میں شریک پارلیمان رہ کر پارلیمنٹ کا لطف اٹھا چکا ہے اور آج آپ لوگ شہید فداکے نظریے سے منحرف ہوکر شہیدوں کا لہو ریاستی اداروں میں نیلام کررہے ہو،اور اسی لہو کو اپنے لیے ان اداروں میں جگہ بنانے کا ذریعہ سمجھ رہے ہو۔
زون کے دوستوں کی باتیں سن کر ڈاکٹر یٰسین کہنے لگا نہیں نہیں ہم نے لہو دینے کی بات کبھی نہیں کی اور نہ ہی شہیدوں کے لہو کا سودا لگانے کا سوچ سکتے ہیں۔ دیوان میں بیٹھے ہوئے دوست ڈاکٹر یٰسین کی باتیں سن کر ہنسنے لگے۔تو ایسے میں ایک بزرگ دوست جذباتی ہوکر کہنے لگا کہ یٰسین آپ کی اور آپ کے دوستوں کی وہ باتیں آج بھی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ نگ کی صورت میں موجود ہیں جن میں آپ لوگوں کو بلوچ قوم کی آزادی کے لیے گوریلہ جنگ سے لیکر بلوچستان لہو مانگتا ہے کے نعرے دیکھنے اور سننے کو ملیں گے۔ اگر پارلیمانی عیاشیوں نے آپ لوگوں کو اس قدر مد ہوش نہیں کیا تو آپ لوگ ان ریکارڈنگ میں اپنا چہرہ اور اپنی آواز ضرور پہچان لو گے۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ آج مکران میں بلوچ قوم نے پاکستانی پارلیمنٹ کو خیر باد کہہ کے ایک تاریخی اقدام کیا ہے آنے والے دنوں یہ نظارہ تم لوگوں کو پورے بلوچستان میں دیکھنے کو ملے گا۔
اس دیوان میں ہی ان نام نہاد قوم پرستوں کو یہ یقین ہو چلا کہ اب شہید غلام محمد بلوچ نے اپنا راستہ جدا کرلیاہے اور وہ پاکستان کے خلاف ہر قسم کی مزاحمت کی راہ اختیار کرسکتا ہے۔

——————– جاری ہے۔

Share This Article
Leave a Comment