بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین درپشان بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ قابض سے جمہوریت کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قابض پاکستانی ریاست جو بلوچستان پر غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی طریقے سے زور زبردستی اور تشدد و طاقت کی زور پر قابض کے طور پر موجود ہے اور طاقت اور تشدد کے ذریعے لوگوں کو دبائے اور غلام رکھا ہوا ہے ان سے جمہوریت، جمہوری و انسانی اقتدار اور سول سپریمیسی کی بالادستی کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہے۔ پاکستانی ریاست مرکزی سطح پر جہاں جمہوریت کا گلا گھونٹ چکا ہے اور گزشتہ ستر سالوں سے فوج کبھی براہ راست تو کبھی پیچھے سے حکومت کرتی آ رہی ہے وہی بلوچستان میں کچھ مفاد پرست لوگ جمہوریت اور پارلیمنٹ کا رٹہ لگائے بیٹھے ہوئے ہیں اور عوام کو جھوٹے خواب دیکھائے جا رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ عوام کو اس نام نہاد جمہوریت اور ریاستی نظام سے جوڑنے کیلئے خوار و ذلیل کرنے کے بجائے قومی بقاء و جہد آزادی کے عمل و فکر سے وابستہ کریں تاکہ جلد از جلد اس ناسور سے بلوچ قوم چھٹکارہ پا سکیں۔ جہاں اس ملک پر قابض پنجابی حاکموں کو لاہور و اسلام آباد میں فوج نے پاؤں کے نیچے دبائے رکھا ہوا ہے وہی بلوچستان جو ریاست کی ایک کالونی ہے اور یہاں اسکول سے واٹر سپلائی کے معاملات تک فوج ڈیل کرتی ہے یہاں سے کچھ نام نہاد جمہوریت پسند وقتی مفاد کی خاطر بلوچ عوام کو ایک جھوٹی امید دلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور اتنی وفاداری دیکھانے کے بعد بھی انہیں فوج کی طرف سے رد کر دیا گیا تو اب واولا شروع کر دیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ جو ملک بلوچستان میں دھاندلی کی بنیادپر موجود ہے اس سے صاف و شفایت کی امید رکھنا خود کو بےوقوف بنانے کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں عوامی ردعمل اور انتخابات سے بائیکاٹ ان کیلئے سبق ہے کہ وہ اس ناکام کوشش کو ترک کریں جس پارلیمنٹ سے ہمارے آباؤ اجداد کچھ حاصل کر نہ پائے یہاں سے ڈاکٹر مالک و بی این پی جیسے لوگ جو ایک طرف بلوچوں کو پارلیمنٹ کیلئے ورغلاتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسی کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے بلوچ قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ بلوچ قوم جہاں آج قابض پاکستان کی اصلیت اور حقیقت سے واقف ہو چکی ہے وہی آج انہوں نے بلوچ قوم کے اندر موجود ان مفاد پرست افراد کا بھی شناخت کر لیا ہے جو ایک طرف جمہوریت، پارلیمنٹ اور ریاست کی بات کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ ریاست کے مہرے کے طور پر کام کرتے ہیں جنہوں نے بلوچ سرزمین پر قبضہ جمایا ہے۔اب تو پنجابیوں میں بھی اس ناکام جمہوریت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ ریاست سے چند مفاد کی خاطر بلوچ مفادات کا مسلسل سودے کرتے ہوئے لوگوں کو ورغلا رہے ہیں اور چند مراعات کی خاطر قوم دشمنی کا کام سرانجام دیتے ہیں لیکن یہ ریاست جو اپنے لوگوں سے وفادار نہیں تو ایک غلام کی حیثیت سے آپ کس طرح اس سے امید لگا سکتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ عوام ان کا احتساب کریں جو مسلسل دروغ گوہی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے سرگرم ہیں۔ ایک طرف انہوں نے عوامی خواہشات کے باوجود علاقائی، قبائلی و رشتہ داری و دیگر حکمت حملیوں کو استعمال کرتے ہوئے چند لوگوں کو ووٹ ڈانے کیلئے مجبور کیا تاکہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے میں کامیاب ہوں جبکہ اب جب ریاست نے اپنا حقیقی چہرہ دیکھاتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا تو انہیں بلوچیت اور جمہوریت یاد آ گیا اور اب لوگوں کو جمہوری جدوجہد کے نام پر ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچ عوام کو ان کی حقیقت سے واقف ہونا چاہیے بلوچستان میں پارلیمنٹ پسند کوئی بھی شخص بلوچ دوست نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ لوگ پارلیمنٹ میں رہ کر بلوچ دشمنی سرانجام دیتے آ رہے ہیں اور بلوچ قومی معدنیات کی سودے بازی میں پیش پیش رہے ہیں۔