امریکا کے لڑاکا طیاروں نے ایک بار پھردارالحکومت صنعا میں حوثیوں کے مختلف مقامات پر ریڈار تنصیب اور حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
واضع رہے 11 جنوری جمعے کی صبح امریکا اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر یمن میں ایک فضائی آپریشن کیا تھا جس میں ایران نواز حوثی گروپ کے فوجی ڈھانچے، ڈرونز لانچ کرنے کے مقامات اور اسلحہ کے گوداموں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ میزائل اور لڑاکا طیاروں کے ذریعے 16 مقامات کو نشانہ بنایا، جن میں دارالحکومت صنعا اور حوثیوں کے گڑھ الحدیدہ شامل ہیں۔
یہ حملے بحیرہ احمر میں اسرائیل سے منسلک ایک تجارتی جہاز پر حوثیوں کے بار بار حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں۔
حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ان کے کم از کم پانچ ارکان مارے گئے ہیں۔
12 اور 13 جنوری کی درمیانی شب امریکا نے صنعا کے ہوائی اڈے کو بھی ٹارگٹ کیا گیا، خبر ایجنسی کے مطابق حملوں کے بعد دارالحکومت صنعا میں شدید دھماکوں کی آوازیں سنی گئی، بندرگاہی شہر حدیدہ پر بھی حملوں کی اطلاعات ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے گزشتہ روز بحیرہ احمر میں کارروائی کے صورت میں یمن پر مزید حملوں سے خبردار کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے جمعے کو کہا ہے کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن مکمل طور پر متحرک ہیں۔ وہ یمن میں حوثیوں پر حملوں میں مکمل طور پر شامل تھے اور حملوں کے بعد کی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب پینٹاگان نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس ابھی تک اس بات کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں ہے کہ سیکرٹری دفاع آسٹن کو ہسپتال سے کب تک گھر منتقل کیا جائے گا۔
حالیہ دنوں میں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ لائیڈ آسٹن کسی خطرناک بیماری کا شکار ہوئے ہیں جس کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
کربی نے انکشاف کیا کہ امریکہ یمن میں حوثی گروپ پر امریکی- برطانوی فضائی حملوں کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے، جس میں باغی ملیشیا کی میزائلوں اور ڈرونز کو ذخیرہ کرنے، لانچ کرنے اور براہ راست مارنے کی صلاحیت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ "ہم ابھی تک ان تمام اہداف پر اصل اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ کام جاری ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں آنے والے گھنٹوں میں یہاں ہونے والے نقصان کا بہتر اندازہ ہو جائے گا۔”
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ حوثیوں کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں دوبارہ شامل کرنے کے امکان کا جائزہ لے رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے فروری 2021ء میں حوثیوں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جان کربی نے CNN کو بتایا کہ "ہم ابھی اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا ہم اسے منسوخ کریں گے یا نہیں۔ اسے دوبارہ تبدیل کریں، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم اس پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں”۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یمن میں حوثیوں پر امریکی حملوں کے باوجود واشنگٹن "ایران کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتا”۔ انہوں نے MSNBC پر کہا کہ "ہم ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔ ہم کشیدگی نہیں چاہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا اس سے آگے بڑھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے”۔
دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے ترجمان پیٹرک رائڈر نے اعلان کیا کہ امریکا کا خیال ہے کہ اس نے یمن میں حوثی ٹھکانوں پر حملے شروع کر کے ایک اچھا نتیجہ حاصل کیا ہے۔
رائڈر نے CNN پر کہا کہ "ہمارے ابتدائی جائزوں کے مطابق ہم نے ایک اچھا نتیجہ حاصل کیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکا بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور مستقبل میں اس قسم کے (حوثی) حملوں کو پسپا کرنے کی ہماری صلاحیت کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی ذمہ دارانہ اور درست طریقے استعمال کر رہا ہے۔
پینٹاگان کے ترجمان نے کہا کہ ان کا ملک مشرق وسطیٰ میں اضافی افواج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ رائڈر نے اس معاملے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "خطے میں اضافی امریکی افواج بھیجنے کے تناظر میں اعلان کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے”۔