ایک عظیم بلوچ ماں لازوال قربانیوں کی داستان چھوڑ کر تاریخ کے پنوں میں امر ہوگئی ہے۔
مری قبیلے سے تعلق رکھنے والی گل بی بی جو کہ اپنے میں قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے۔ بلوچ راج کیلئے عموماً اور بلوچ ماؤں اور بہنوں کیلئے خصوصاً ایک سبق آموز اور عقیدت کی لائق کردار کا نام ہے۔
وہ ماں جس نے نا صرف اپنے خاندان کے قریبی پیاروں کو وطن کی آن میں قربان ہونے کیلئے بھیجا بلکہ اپنی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی اس سرزمین کی آزادی اور بقا و وقار کیلئے خوشی خوشی قربان کردیا۔
مری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے دس افراد نے بلوچستان کی آزادی اور بقا کی جنگ میں شامل ہوکر اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ قربانیاں یقیناً، تمام گھرانوں اور خاندانوں کیلئے ایک سبق آموز کہانی ہے۔ یہ قربانیاں بتاتی ہیں کہ وطن کی آزادی سب سے زیادہ اہم اور مقدس ہے۔ کیونکہ وطن کی آزادی قوم کی وقار و بقا کا ضامن ہوتا ہے، قومی ننگ و ناموس کی سلامتی کا ضامن ہوتا ہے۔ جبکہ غلامی یا محکومیت تذلیل اور موت کا اعلان ہوتا ہے۔
ان قربانیوں کے پیچھے دراصل وہ شعور، غیرت اور کمٹمنٹ کے ساتھ زندگی گزارنے کا پختہ فیصلہ کارفرما ہے جو کہ انسان کو ہر اس چیز کے خلاف لڑنے پر مجبور کرتا ہے جو اس کے شعور پر قدغن، غیرت پر چابک اور عزت پر وار کرتا ہو۔ یقینا، وہ لوگ جن میں شعور ہو اور غیرت ان کے رگوں میں خون کی مانند بہتا ہو، وہ کبھی اپنی غلامی اور بے توقیری کو برداشت نہیں کرتے۔
یہ شعوری اور ارادی قربانیاں ثابت کرتی ہیں کہ سرزمین، اس کی ننگ و ناموس، اسکی پجار اور قومی بقا اول حیثیت رکھتی ہے، جبکہ اس کے آگے دنیا کی ہر دوسری چیز ثانوی ہے۔ یہ قربانیاں ہم سب کیلئے یہ پیغام چھوڑتی ہیں کہ سرزمین کیلئے کٹنا، مرنا اور تڑپنا کوئی پاگل پن اور کوئی خسارہ نہیں بلکہ امر رہنے کی بشارت ہے، تاریخ کے پنوں میں محفوظ ہوکر آنے والی نسل کیلئے تحریک اور انسپائریشن بننا ہے۔
مری قبیلہ کے اس خاندان کا بلوچ اور بلوچستان پر بہت بڑا قرضہ ہے۔ قرضہ اس لیئے کہ انھوں نے اپنے وطن کی آزادی کیلئے ایک ایک کرکے جانوں کا نذرانہ پیش کردیا تاکہ یہ سرزمین آزاد رہے، آزادی اور شان جمال کیساتھ قائم دائم رہے۔ مگر وہ اپنی زندگی میں آزادی نہیں دیکھ سکے۔ وہ اپنا حق ادا کرکے اس خوبصورت خواب کو بطور قرض ہمارے کھندوں پر چھوڑ گئے ہیں۔ اب یہ مجھ سمیت ہر بلوچ کے اوپر فرض ہے کہ اس قرضے کو پوری ایمانداری کے ساتھ چکائیں۔ ان قربانیوں کو رائیگاں جانے نہ دیں۔ اور اس خواب کی تعبیر میں جان لگا دیں جو کبھی ان عظیم شہیدوں کی آنکھوں میں اپنی پوری شان کے ساتھ بستا تھا۔
یقیناً، بلوچ قوم اور بلوچستان کی روشن مستقبل کیلئے کئی گھرانوں اور خاندانوں نے قربانیاں دی ہیں، سب کی قربانیاں قابل احترام اور قابل ستائش ہیں مگر اس خاندان کے قربانیوں کی داستان سے واقف ہونا اس خاندان کے عظیم شہیدوں کو یاد کرنا ہم سب پر فرض بنتا ہے۔ اور ان قربانیوں سے سیکھنا ہم سب پر فرض ہے، کیونکہ آزادی قربانیاں مانگتی ہیں اور یقینا، ایسی قربانیاں رنگ لے آتی ہیں۔
میں آج اس عظیم ماں کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں کہ جس نے بہت زیادہ اذیتیں، تکالیف اور مشکلات کا سامنا کیا مگر وہ خاموشی اور ہر طرح کی قربانیوں کیساتھ سرزمین کی آزادی کی جہد میں مسلسل چلتی رہی، کسی کے سامنے اپنے غم و تکالیف کو لیکر اُف تک نہیں کی۔ بلوچ قومی تحریک کی مضبوطی اور دوام کے پیچھے لامحالہ ایسی ہی ماؤں کی قربانیان کارفرما ہوتی ہیں۔ دعا ہے کہ بلوچ مائیں سلامت رہیں۔ ایسی بہادر اور قربانیوں سے دریغ نہ کرنے والی عظیم مائیں ہی عظیم فرزند جنتی رہے۔
٭٭٭