انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان کی بدسلوکی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے۔
افغانستان میں برسراقتدار طالبان کو خواتین اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی لگانے کی وجہ سے دنیا بھر میں مذمت کا سامنا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ لڑکوں کی تعلیم پر ان پالیسیوں کے اثرات پر ابھی تک بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ طالبان نے خواتین اساتذہ پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لڑکوں کو غیر تربیت یافتہ افراد تعلیم دے رہے ہیں یا ان کے کلاس رومز میں ٹیچرسرے سے ہیں ہی نہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ لڑکوں اور ان کے والدین نے گروپ کو بتایا کہ اسکولوں میں جسمانی سزاؤں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بال نہ کاٹنے، یونی فارم کی وجہ سے یا موبائل فون پاس ہونے کی صورت میں بھی بچوں کو پورے اسکول کے سامنے سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
گروپ نے کابل، بلخ، ہیرات، بامیان سمیت آٹھ مختلف جگہوں پر 22 لڑکوں اور پانچ والدین سے بات کی۔
طالبان نے سکولوں میں آرٹ، کھیل، انگریزی اور شہری تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی نمائندہ سحر فرتات نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ طالبان کی وجہ سے افغان تعلیمی نظام میں لڑکےاورلڑکیوں کی تعلیم کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے سکول کے نظام کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے ایک پوری نسل معیاری تعلیم کے حصول سے محروم ہو سکتی ہے۔
طلبا نے انسانی حقوق کی تنظیم کو بتایا کہ سکولوں میں ایسے بھی کئی گھنٹے گزر جاتے ہیں جب کچھ بھی نہیں پڑھایا جاتا، کیوںکہ اساتذہ کی شدید قلت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دوران طلبا فارغ وقت گزارتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ طالبان سکولوں کے نظام کو مذہبی مدرسوں کے نظام میں تبدیل کر رہے ہیں۔
طالبان نے عورتوں پر بیشتر عوامی جگہوں پر کام کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور بچیوں کی چھٹی جماعت کے بعد تعلیم پربھی پابندی لگادی ہے۔