بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ترجمان نے ڈیرہ بگٹی میں جاری آپریشن پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کے فلسفے پرگامزن رہتے ہوئے مقامی افراد کو بلا وجہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں اس سے پہلے بھی وسیع پیمانے پر آپریشن کرتے ہوئے مقامی افراد کو نشانہ بنایا گیا، غریب اور بے گناہ افراد کے گھروں کو جلانا، مال مویشی، جنگلات ہر طرح کے نقصان سے دوچار کیا گیا، مقامی افراد کے ساتھ دشمنوں جیسے سلوک کے باعث وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں در بدر کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی کے متعدد علاقوں گنڈوئی، سوناری مٹ، سردار پٹی، اوچ کے علاقے بشک، ڈیم لاغرداوان سمیت دیگر علاقوں میں بروز اتوار 10 ستمبر کو آپریشن کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد لاپتہ فٹ بال کھلاڑیوں کی بازیابی بتایا جارہا ہے، تاہم اس آپریشن کا شکار علاقے کے عام عوام ہورہے ہیں، لوگوں کو لاپتا اور قتل کیا جارہا ہے، گھر جلائے جارہے ہیں۔ تحصیل سوئی سے فورسز نے حراست میں لینے کے بعد الٹا بگٹی اس کے بھائی دین محمد ولد جواں سال، شریف ولد غوث، فاروق ولد ابراہیم، بابل، پٹھان ولد مرزان، باشم ولد سوری، علی بخش ولد علی خان، میاں خان، سلیمان، عزیز، یعقوب ولد شاہ مور بگٹی، کریم ولد غلام رسول بگٹی، مصطفی بگٹی ولد غلام رسول بگٹی، بجار ولد حاجی سبزل بگٹی، سلیمان ولد باری بگٹی اور علی دوست ولد سوری بگٹی کو لاپتہ کردیا۔ آپریشن چار دنوں سے جاری ہے۔ گزشتہ تین دن پہلے چالیس افراد کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اطلاعات کے مطابق آپریشن کو مزید تیز کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی حدود میں زمین کی کوئی ایسی جگہ نہیں بچی کہ جہاں کی مٹی نے بارود کی بو کو نہ سہا ہو۔ سیکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو آپریشنز میں قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا ہے۔ ریاست کی یہ کوشش ہے کہ خوف کی ایسی فضا قائم کی جاسکے کہ بلوچستان سے کوئی بھی بلوچ اور بلوچستان کی بات نہ کرے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ڈیرہ بگٹی میں انٹرنیٹ سروس کو بند کیا گیا ہے تا کہ اس ظلم کو، اس بارودکی بو کو چاردیواری میں بند کیا جاسکے، لوگوں کی آمد ورفت متاثر ہوچکی ہے۔ ہم تمام طبقہ فکر کے لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس ظلم کیخلاف ہماری آواز بنیں اور اس بے رحمانہ بلوچ نسل کشی کے عمل کیخلاف آواز اٹھائیں اور سیاسی جدوجہد کار استہ اختیار کریں۔