بلوچ قومی مسئلہ کا حل کیا ہے؟ زمینی و تاریخی حقائق | رامین بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
17 Min Read

( گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ دوئم )

یہ دور بھی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے لئے ایک کھٹن اور مشکل ترین دور تھا۔ لیکن باوجود سختیوں اور بندشوں کے بی ایس او کے بعض کیڈرز تنظیم کے پروگرام کو جار ی و ساری رکھا کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ دوبارہ بی ایس او کے علیحدہ علیحدہ دھڑوں میں انضمام ہوا ایوب جتک چیئر مین اور یاسین بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ لیکن جلد ہی بی ایس او پھر ٹوٹ پوٹ کا شکار ہوا ور بعدازاں 1988شہید فدا بلوچ کی شہادت کے بعد بی ایس او اپنی بنیادی پروگرام سے ہٹ گئے بی ایس او کے کچھ کیڈرز کا رخ مکمل طور پر پارلیمانی جماعتوں کی جانب رہا اور اس دوران ان میں سے بعض نے قبضہ گیر کے چھوکٹ پر سجدہ ریز ہوکر وزارتیں لیں۔ اور بعض نے سیکریٹریٹ میں ملازمتیں لے کر قومی آزادی کی تحریک سے الگ ہوکر ریاست کی گماشتگی میں رہ کر بی ایس او کی آئین سے غداری کی۔

اگر ایمانداری سے تجزیہ کیاجائے تو بی ایس او کے اکیڈمک نظریاتی کردارکی نشود نما میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ ریاست اور ان کے پیرول پر چلنے والے وہ کردار اور جماعتیں ہیں جو بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد اور موقف سے لاتعلق رہ کرقبضہ گیر کے ساتھ اقتدار میں حصہ داری کے لئے اس حد تک گری رہی جس طرح کہ آج کل عالمی کرنسی کے مقابلہ میں پاکستانی روپیہ کا مقام ہے انہوں نے منصوبہ بندی اور شراکت اقتدار کے فار مولے کے تحت بلوچ قومی تحریک اور قیادت کو ضائع کرنے کے لئے نوآبادیاتی پارلیمنٹ کی منڈی میں خرید و فرخت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مضحکہ خیز حد تک اخلاقی سیاسی پستیوں میں گرے رہے۔

لیکن ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھی وہ بی ایس او اور بلوچ قومی آزادی کی پروگرام کو ختم یا کمزور نہ کرسکے ان کی تمام تر عزائم لاحاصل ثابت ہوئی شہید فدا بلوچ کی شہادت میں یہی لوگ ملوث تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ شہید فدا بلوچ ان کی راہ میں رکاوٹ رہے اور ان کی ریاست کے مابین سیالی و رشتہ داری میں کوئی خلیج حائل ہوکیونکہ بلوچ پارلیمان نواز پارٹیوں نے بلوچ عوام اور نوجوانوں کو ہمیشہ خام مال کے طور پر استعمال کرکے ریاستی قبضہ کو دوام دینے کے لئے پل کاکردار ادا کیا وہ کھبی نہیں چاہتے کہ عوام میں قومی شعور کی بیداری ہو عوام میں آگائی کے حاصلات قبضہ گیر کے گھاک پالیسی سازوں کی سیاسی موت تھی ان کا کرداربے نقاب ہونا تھا۔

لیکن اگر سنجیدہ تجزیہ کیا جائے تو ایک طرف اگر بی ایس او کی لیڈر شپ ریاست کی مفاہمت کی پالیسی کاحصہ بن جاتاہے تو دوسری جانب بی ایس او اپنی سیارے پر قیادت ایسے کیڈرز کی شکل میں سامنے لاتاہے جو بی ایس او کے بنیادی نظریات اور قومی آزادی کی جدوجہد کا دفاع کرتے ہوئے ریاستی گماشتوں کی نظریاتی حملوں کا جواب دینے کے لئے نئی صف بندیوں کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔

جو نظریاتی سچائی کے ساتھ اپنے پولیٹیکل اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے شہداء کی قربانیوں اور بی ایس او کے لال رنگ بیرک کو سرنگوں ہونے نہیں دیتے کیونکہ بی ایس او صرف ایک پراپیگنڈہ سیل نہیں ایک ادارہ ہے فرد ٹوٹ جاتے ہیں فرد بک جاتے ہیں لیکن ادارہ اور نظریات ہتھیار نہیں ڈالتے فروری 2002کا سورج خاموشی کے نیچے ایک انقلاب کا خبر دے رہا ہوتاہے ڈاکٹر اللہ نذر اپنے نظریات اور تعلیمات پر مکمل یقین کے ساتھ سیاست کے تھیٹر میں داخل ہوکر ان مصنوعی اداکاروں کے خلاف چیلنج بن جاتاہے۔ بی ایس او محراب کا کونسل سیشن منعقد ہوتاہے تو ڈاکٹر اللہ نذر بی ایس او کی آزاد حیثیت کا دفاع اور غیر فطری ریاستی پارلیمنٹ کا دو ٹوک الفاظ میں مخالفت کرتاہے کونسلراں کی اکثریت ڈاکٹر اللہ نذر کی موقف کی تائید کرتے ہیں جس سے سیشن میں نادر قدوس اور ان کے ساتھیوں کے پاؤں سے زمیں سرک جاتی ہے ڈاکٹر اللہ نذر اپنے دیگر ہم عصر ساتھیوں کے ساتھ کونسل سیشن کا بائیکاٹ کرکے الگ سے کونسل سیشن کا اعلان کرتاہے توبی ایس او کے نوجوان کونسلراں انہیں تنظیم کے کماش چیئر مین منتخب کرتے ہیں۔

یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا جب پہلی دفعہ بی ایس او سے ڈاکٹر اللہ نذر نے پاکٹ آرگنائزیشن کا لیبل مٹا کر بی ایس او کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرکے تنظیم کو قومی آزادی کے واضح ایجنڈااور ایک طویل المیعاد مستقل پروگرام اور پالیسی دی آزادی کی یہ جدوجہد اب یہی پہ ختم نہیں ہوانہ ہوسکتی ہے آخری فتح اور آخری لڑائی تک کئی امتحانات اور بھی آئیں گے دو دہائیوں سے بی ایس او کے طویل المیعاد پرو گرام کو کوئی کٹھ پتلی قوم پرست یرغمال نہیں بنا سکا اور نہ ہی قابض ریاست نوجوان جدوجہد کو بوڑھا کرسکا تنظیم کے سینکڑوں کیڈرز اور باسک کو شہید کیا گیا سینکڑوں اب بھی جبری گمشدگی کا شکار ہے تنظیم پر برسرزمیں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے لیکن تنظیم نے آزادی کا راستہ نہیں بدلا ریاستی جبر و قہر نے تنظیم کو اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا سکا۔

نوجوان اپنے نظریات پر جانثار ی اور چٹان جیسے حوصلوں کے ساتھ کھڑی ہے دوسری جانب ریاست کے فنانس کردہ فرمان برداراور ڈھیٹ نام نہاد قوم پرست جو بلوچ قوم کے خودساختہ نمائندہ بنے ہوئے تھے کی سیاسی زوال پزیری کا آغاز اس وقت ہوا جب شہید غلام محمد بلوچ نے نیشنل پارٹی سے الگ ہوکر بلوچ نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھ دی اور قومی آزادی کی جدوجہد کی داغ بیل ڈالی اوران سو کالڈ قوم پرستوں کے سیاسی داؤ پیچ اور کثیر القومی قومی ریاست جیسے موقف کو غیر فطری اور بلوچ قومی موقف سے متصادم و بے بنیاد قرار دیکر بلوچ قوم کی علیحدہ شناخت اور آزاد قومی ریاست کی بات کی یہ کشمکش ریاست اور بلوچ قوم کے درمیان اب بھی شدت کے ساتھ جاری ہے بی ایس او کی طرح بی این ایم کے بھی سینکڑوں کارکناں یا تو شہید کردیئے گئے ہیں یا جبری گمشدگی کا شکار ہیں اور بی این ایم بھی سرفیس سیاست میں ریاستی بندشوں کا سامنا کررہی ہے اور اب بی ایس او کے طرح زیر زمین رہ کر بلوچ تحریک میں ہر اول دستہ کے طورپر کردار ادا کررہاہوہاہے جس کی جڑیں بلوچ عوام میں گہری اور وسیع ہیں۔اب آتے ہیں بنیادی موضوع کی طرف کہ بلوچ مسئلے کا حل کیا ہے؟مضمون کی شروع میں نے لکھا کہ یہ کوئی پیچیدہ سبجیکٹ نہیں ہے کہ اسے کوئی سمجھ نہ سکے البتہ سمجھنے کے باوجود بھی اس سے دیدہ دانستہ لاعلمی کا مظاہرہ کیا جارہاہے سب سے اول کہ اسے قبضہ گیر ریاست مجرمانہ طور پر سنجیدہ نہیں لیتا یا اسے بلوچ قوم کی قومی آزادی کا مسئلہ نہیں سمجھتا اس کی بڑی وجہ ریاست کے قبضہ اورstatus quoہے اس میں ریاستی سطح پر اتنی اخلاقی جرائت نہیں کہ وہ بلوچ قومی مسئلہ کے منطقی حل کی جانب پیش قدمی کریں یا قومی آزادی کے اصولی مطالبہ کو سنجیدہ لیں تاریخ شاہد ہے کہ قابض کھبی بھی رضاکارانہ طور پر اپنی قبضہ سے دستبردار نہیں ہوتا بلکہ اسے جنگ اور جدوجہد کے زریعہ باہر نکالا جاتاہے۔

بلوچ آزادی کی تحریک آج کی نہیں برٹش قبضہ کے خلاف بلوچ قوم کی سیاسی اور مسلح جدوجہد کی ایک شاندارتاریخ ہے برطانوی راج کے خاتمہ اور آزاد بلوچ ریاست کی قیام و تشکیل کے لئے بلوچ قوم نے جو تاریخ بنائی ہے وہ سیاہی سے نہیں بلکہ خون سے لکھی ہے 1947سے قبل کرہ ارض کے نقشہ اور عالمی تاریخ میں پاکستان نامی ریاست کا سرے سے کوئی وجود اور ذکرنہیں ملتاتھا اور نہ ہی جعلی دو قومی نظریہ کے بنیاد پر غیر فطری پاکستانی ریاست کا قیام کسی لڑائی اور جدوجہد کی زریعہ حاصل ہوئی بلکہ برطانوی سامراج نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے اپنے پروردہ اور گماشتہ کرداروں کو ان کی خدمات اور باج گزاری کے لئے ہندوستان کی جغرافیہ کو تقسیم کرکے ایک خونی بٹوارہ کے زریعہ یہ پنجابی ریاست بناکے دیا یہ ایک ننگی حقیقت ہے کہ اس کے پہلے دو چیف آف آرمی انگریز جنرل تھے ان کے اپنی ہی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور احمد سلیم لکھتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دور میں انگریز سامراج نے ہندوستان بھر سے سات لاکھ چھبیس ہزار رنگروٹ بھرتی کئے جس کے ساٹھ فیصد بھرتیوں کا کوٹہ پنجابیوں نے پورا کیا۔

وہ آگے یہ بھی لکھتے ہیں انہیں جبری طورشامل نہیں کیا گیاتھا بلکہ وہ برضا و منشاء شامل ہوگئے تھے حالانکہ پورے ہندوستان کی آبادی میں پنجاپی صرف تیرہ فیصد تھے جو ساٹھ فیصد فوجی بھرتی پورا کرکے تین لاکھ پچاس ہزار فوجی رنگروٹ دیئے بھرتی بورڈ کے صدر اوڈوائر کے اپنے الفاظ میں کہ پنجابیوں نے لڑائی کے شروع میں ایک لاکھ نفری میدان میں اتاری اور لڑائی کے اختتام میں تقریبا پانچ لاکھ پنجاپی الگ الگ پلٹونوں میں برطانوی فوج کی خدمت کرچکے تھے ”جلیانوالہ باغ“ نامی کتاب کے مصنف لکھتاہے کہ جلیانہ والا باغ میں ہزارہا ہندوستیاں کی قتل عام میں جنرل ڈائر کی حکم پر یہی پنجاپی ملوث تھے جنہوں نے انتہائی بے دردی کے ساتھ معصوم مظاہرین کا خون بہایامصنف آگے لکھتاہے کہ میں کس زبان سے کہوں کہ یہ انگریز کے رنگروٹ زادوں نے ہندستان کی آزادی پسندوں کا سر قلم کرکے قومی عزت و آبرو کو بری طرح مجروح کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ یہ ہندوستان کے آبادی کے ایک تہائی حصہ بھی نہیں لیکن برٹش سامراج کی سرپرستی میں ہندوستان کی جغرافیہ کو تقسیم کرکے غیر فطری ہندو مسلم نظریہ کو ابھارکر ان کے لئے ایک ریاست بنائی گئی جس کی حیثیت برطانوی سامراج کے لئے ایک کالونی اور تجارتی منڈی سے بڑھ کر کچھ نہیں اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو پاکستان کے نام سے پنجاپی ریاست در اصل پنجابیوں کو انگریز وفاداری کا تحفہ ہے جو باعث اعزاز نہیں بلکہ باعث شرم ہے جو لاکھوں کروڑون مسلمانوں ہندوؤ ں اور سکھ آزادی پسند انسانوں کے قتل عام کاتمغہ ہے۔یہ دنیا میں واحد ریاست ہوگی جس کی کوئی فطری اور تاریخی حقیقت نہیں اور نہ ہی کسی سامراج سے لڑکر آزاد ہوا بلکہ سامراجی وفاداری اور گماشتگی کا عوض ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ یہ انگریز فوج کے مارشل ریس تھے جنہیں برطانوی فوجی بھرتی کے لئے مثالی سمجھا گیا تھا جن کے ہاتھ ہندوستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے تاریخی حقائق کو سامنے رکھاجا ئے تو اس زمینی سچ کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ برطانوی سامراج کی منصوبہ بندی تھی کہ وہ 1948 میں ہندوستان اور بلوچستان میں اقتدارمنتقل کرکے واپس جائیں گے لیکن پھر عجلت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان میں موجود برطانوی حکومت کے نمائندے لارڈڈیول کے بجائے اب ان کی نمائندگی لارڈماؤنٹ بیٹن کریں گے جو اگست 1947میں اقتدار منتقل کردیں گے پھر اچانک تین جون 1947کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے لکھاکہ کہ نو ہفتے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوگی اور اس کے لئے ایک برطانوی وکیل قانوں دان سیریل ریڈ کلف کو زمہ داری دی گئی کہ وہ پاکستان کے نام سے مصنوعی سرحدی حد بندی کریں ریڈ کلف جو اس سے پہلے کھبی ہندوستان نہیں آئے تھے اور نہ ہی وہ کسی سرحدی بندی کے بارے میں جانکاری رکھتے تھے بلکہ محمد علی جناح نے انہیں بنگال اور پنجاپ کو تقسیم کرنے کے لئے پہلے سے تیار نقشہ مہیا کرکے بنگال اور پنجاپ کو الگ کرکے ہندوستان کے جغرافیہ میں ریڈکلف لائن کے نام سے خنجر گھونپا گیا جب یہ مصنوعی لکیر کھینچی گئی اس وقت مہاتما گاندھی بنگال میں تھے۔

متزکرہ بالا حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان عالمی سامراج کی تخلیق کردہ کالونی اورپنجاپی ریاست ہے یہ بلوچ سندھی پشتون اور بلتی قوم کا وطن نہیں ہے اور نہ ہی یہ بنگالیوں کا تھا بنگالی تو اس کے غلامی سے نکل گئے اب بلوچ پشتون سندھی اور بلتی اقوام بھی اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ 4 اگست 1947 کولارڈماؤنٹ بیٹن وائسرئے ہندنے خان آف قلات احمد یارخان کے ساتھ بلوچستان کے آزاد و خود مختیار حیثیت کے حوالہ سے ایک معائدہ پر دستخط کئے جو 11 اگست 1947کو ایک اعلامیہ کے زریعہ آل انڈیا ریڈیو پر دہلی سے نشر کر کے بلوچستان کی آ زادی کا اعلان کیا گیا اور یہاں یہ واضح کیا گیا کہ بلوچستان کی حیثیت ہندوستان کی ریاستوں سے مختلف ہے معائدہ کے دوران محمد علی جناح اور کل ہند مسلم لیگ ڈومینیئن بھی موجود تھے جنہوں نے بلوچستان کی آزادی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس معائدے پر انہوں نے دستخط بھی کئے لیکن ایک سال بعد برطانوی سامراج کی کھوکھ سے جنم لینے والے ریاست جس نے اس بین الاقوامی معائدہ سے روگردانی کرتے ہوئے اپنی ہی دستخط شدہ معائدہ کی دھجیاں اڑاتی ہوئی بلوچ مرضی و منشا ء اور بلوچ پارلیمنٹ کے فیصلہ کے خلاف بلوچستان پر فوج کشی کرکے طاقت کے زریعہ بلوچستان کو جبری الحاق کے زریعہ زبردستی پاکستان میں شامل کیا حالانکہ بلوچستان نہ ہندوستان کا حصہ تھا اور نہ ہی بلوچ اور پنجاپی کے درمیان کوئی تاریخی زمینی قومی لسانی ثقافتی یا نظریاتی رشتہ تھاہر لحا ظ سے بلوچ اور پنجاپی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔

(جاری ہے)

٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment