چین(سنگر نیوز)چین میں حکام نے کورونا وائرس کی وبا بڑے پیمانے پر پھیلنے کے بعد دوسرے ممالک سے چہرے کو ڈھانپنے کے لیے ماسک مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔
چین کو کتنے ماسک کی ضرورت ہیں؟
اگرچہ شعبہ طب کے ماہرین ماسک کی افادیت سے اتنے مطمئن نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود عام لوگوں اور طبی عملے میں اس کا استعمال بہت عام ہے۔
ابھی حتمی طور پر ماسک کی طلب کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پورے چین میں یہ وبا پھیلی ہے لیکن ماسک کی طلب کا اندازہ لگانے کے لیے ہوبائی صوبے کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں جو سب سے زیادہ اس وائرس سے متاثر ہوا ہے۔
اس صوبے میں صرف میڈیکل سٹاف کے لیے پانچ لاکھ تک ماسک درکار ہیں۔ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق اس ماسک کو باقاعدگی سے تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے یعنی طبی عملے کے لیے دن میں تقریباً چار مرتبہ ایسا کرنا ضروری ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر طبی عملے کو ایک دن میں 40 لاکھ تک ماسک درکار ہیں۔
فی الوقت کورونا وائرس سے متاثرہ چین کے دیگر صوبوں کے طبی عملے کی صیحح تعداد کے بارے میں تفصیلات نہیں دی جا سکتی ہیں تاہم یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہاں بھی ماسک کا استعمال اتنے ہی بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہو گا۔
اس کے علاوہ عام شہریوں میں بھی ماسک کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
چین میں پبلک ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے عملے کے پانچ لاکھ ارکان کو ماسک استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بعض دکانداروں اور تاجروں نے اپنے گاہکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان کی دکان میں ماسک پہن کر آئیں
یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ چین میں بیماریوں سے محفوظ رہنے یا اگر بیمار ہونے کا خدشہ ہو تو ماسک پہننے کر گھر سے نکلنے کا رواج عام ہے۔
گو کہ یہ اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ چین کو کتنی تعداد میں ماسک درکار ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ ماسک کی طلب پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور یہ اب مزید بڑھ جائے گی جب فروری کے وسط تک نئے سال کی چھٹیاں گزارنے کے بعد لوگ اپنے اپنے دفاتر کو واپس لوٹیں گے۔
چین کتنے ماسک بنا رہا ہے؟
عام حالات میں چین میں ہر روز تقریباً دو کروڑ ماسک بنائے جاتے ہیں۔ جو کہ دنیا بھر میں بنائے جانے والے ماسک کا لگ بھگ نصف ہے۔
تاہم اس وقت چین میں نئے سال کی چھٹیوں اور وائرس کی وبا کی وجہ سے صرف ایک کروڑ ماسک روزانہ کے حساب سے بنائے جا رہے ہیں۔ جو چین میں موجودہ طلب کو پوری کرنے کے لیے نہایت کم ہے۔
اس کے علاوہ اعلی کوالٹی کے ماسک کی طلب بہت زیادہ ہے۔
اعلی کوالٹی کے ماسک میں سے ایک این 95 ہیں جن کی ساخت اس نوعیت کی ہے ان میں 95 فیصد جراثیم اور ذرات کو روکنے کی صلاحیت ہے۔ یہ عام ماسک، جن کو بار بار تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، سے بہت بہتر ہیں۔
چین کی وزارت صنعت کے اعداد و شمار کے مطابق میں اس وقت روزانہ اعلیٰ معیار کے چھ لاکھ ماسک تیار کیے جا رہے ہیں۔
چین کے صوبے ڑنجیانگ نے 27 دسمبر کو اطلاع دی تھی کہ انھیں اعلی معیار کے دس لاکھ ماسک روزانہ چاہیں جبکہ دیگر صوبوں کا کہنا تھا کہ وہ بمشکل مقامی مانگ پوری کر رہے ہیں۔
مزید براں ہسپتالوں میں بھی زیادہ تعداد میں ماسک موجود نہیں ہیں اور کچھ جگہوں پر صرف دو ہفتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ماسک موجود ہیں۔
چین بھر سے اطلاعات موصول ہو رہی کہ ماسک کی شدید قلت ہے اور ان کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں کیونکہ لوگ بڑی تعداد میں ماسک خرید رہے ہیں۔
ماسک کی طلب کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں ایک آن لائن شاپنگ سائٹ ٹوباؤ نے کہا ہے کہ جنوری کے مہینے میں صرف دو دنوں میں انھوں نے آٹھ کروڑ ماسک فروخت کیے ہیں۔
کیا چین باہر سے ماسک منگوا سکتا ہے؟
چین نے 24 جنوری اور دو فروری کے دوان 22 کروڑ ماسک خریدے ہیں۔
فروری کے آغاز سے ہی حکام نے ادوایات اور طبی آلات پر سے درآمدی ڈیوٹیاں ختم کر دی ہیں۔
امریکی کمپنی ایم تھری،جو معیاری ماسک بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہے، کا کہنا ہے کہ وہ عالمی سطح پھر ماسک کی طلب پوری کرنے کے لیے اپنی پیداوار بڑھا رہے ہیں۔
برطانیہ میں قائم کیمبرج ماسک کمپنی، جو اعلی معیار کے ریسپیریٹر ماسک تیار کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ انھیں غیر معمولی آڈر ملے ہیں اور ان کی تمام پیداوار فروخت ہو چکی ہے۔
سنگاپور میں ایک فارمیسی جس کا سارا سٹاک چین نے خرید لیا ہے
کچھ ملکوں نے جن میں تائیوان اور انڈیا شامل ہیں نے ماسک اور منھ پر باندھے جانے والے کپڑوں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔
تائیوان اپنے شہریوں کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے۔ تائیوان نے ماسک کی فروخت کی راشنگ شروع کر دی ہے۔
چین کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں سے بھی ماسک کی قلت کا اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جہاں کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا اور لوگوں خوف کے عالم میں ماسک خرید رہے ہیں۔
چار فروری تک امریکہ میں صرف 11 مریض سامنے آئے تھے لیکن بہت سے دکانداروں کا کہنا تھا کہ انھیں ماسک کی قلت کا سامنا ہے۔ جبکہ امریکہ میں حکام نے عوام سے کہا ہے انھیں ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔