پیرک جان بے شک یہ آزادی کی جنگ رکنے والا نہیں تحریر سمیر جیئند بلوچ –

0
650

اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں گوریلا جنگ کے بہترین جنگی حکمت عملی اور بہترین سے بہترین منظم جاسوسی نظام سلطان صلاح الدین ایوبی کرد کے دور اقتدار 1170ء بعد دیکھنے کو ملتاہے (قطعہ نظر اس کے کہ وہ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو لڑاتے تھے یانہ)کہ وہ کس جنگی بصیرت سے تعداد میں کم مگر غیرمعمولی فوج زریعے بڑے سے بڑے فوجوں کو اپنے کامیاب گوریلا جنگی حکمت عملی یعنی شب خون مار کر غائب ہوجانے کے بنیاد پر لوہے کے چنے چبوانے پر مجبور کرکے جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹتے تھے۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت کے مسلمان امراء سمیت انکے دوسرے مخالفین جنھیں عرف عام میں صلیبی کہا جاتاہے،نہ صرف دولت ہیرے جواہرات اور دولت سے مالا مال تھے بلکہ وہ ایک مضبوط فوجی سازو سامان سے لیس ہونے باوجود،انکے زندہ ہونے تک انھیں اپنے جنگی چالوں میں نہ پھانس سکھے۔ بلکہ اپنے ہی چال چل کر آخری لمحات میں دشمن کے دام میں پھسنے اور اسکے خواہش کے طریقہ جنگ کا شکار ہوکر ملیا میٹ ہوجاتے۔ یہاں ایک دو نہیں بیسیوں جنگی مواقع آتے رہے مگر وہ ہر بار ناکام رہے،ان کامیابیوں کا سہرا یقیناََ سلطان صلاح الدین اور جاسوسوں کے استاد ابوصفیان ہی کو جاتاہے،کہ وہ اپنے جاسوسوں کی تربیت اور اس نظام کو جنگ کی کامیابی کا تاج سمجھ کر اس نظام کو عملاََ مضبوط کیا،دوسری طرف مخالفین نے ان کے جاسوسی نظام کو توڑنے کیلئے اس کے عام سپاہی سے لیکر سپہ سالوروں تک کو عیش عشرت کی لالچ دیکر خریدا مگر سلطان صلاح الدین اور اس کے جاسوسوں کے شاہینی آنکھوں سے اپنے آپ کو بچا نہ سکتے، اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے حکومت کے اندر

بغاوت کرتے کچلے جاتے۔تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ سلطان صلاح الدین کے ایسے ایسے آنکھ اور بازوں کو دشمن لالچ زریعے توڑا کہ وہ انھیں پکڑنے بعد دانت پیس پیس کر کربناک انداز میں روتے انھیں جدا کرتے کیونکہ انھیں یقین نہیں ہوتا کہ میرا دست راست ایسی حرکت قوم اور میرے خلاف ا قتدار یادنیاوی لذت حاصل کرنے کیلئے خوبصورت دوشیاوں زریعے اپنا مقصد بھول کر کریں گے۔یہاں تک آستین کے سانپوں کا کرادار ختم نہیں ہوتا اس کے بعد بھی یہ کردار دیکھنے کو ملتے ہیں،وہ اقتدار کے چھننے کی لالچ اور حاصل کرنے کیلئے سلطنت عثمانیہ کے بانی سلیمان شاہ جیسے عظیم رہنما کیلئے بھی اسکے بھائی کردوغلو زریعے موت کا پھندہ باربار ڈالتے ہیں مگر ناکام ہوجاتے ہیں۔اسی طرح اوغوز خاندان کا شیرازہ بکھیرنے میں سعدتین کوپیک جیسے بدنما کردار بھی دیکھے جاتے ہیں جو اقتدار کی حوس میں منگولوں اور صلیبیوں سے ملکر اپنے ہی سلطان الہ الدین کو زہر دیکر نہ صرف ھلاک کرتے ہیں بلکہ اسکے خاندان سمیت پورے قوم کے زوال کا بھی سبب بنتے ہیں۔یہاں دیکھنے کو ملتاہے کہ اگر ایک طرف یہ سیاہ اوربدنما کردار ہیں تو دوسری جانب،ابوصفیان، غازی سلیمان شاہ، غازی ارتغل اورغازی عثمان کی شکل میں زیرک انسان بھی ملتے ہیں، جو اپنے اندر کالے بھیڑیوں کا صفایا بدستور کرتے رہتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انقلابی تحریک میں لازم ہے ایک طرف اچھے کردار سامنے آتے ہیں تو دوسری جانب انھیں کا توڑ بھی اسی خمیر سے پید اہوکر انکا عارضی یامستقل خاتمہ کرکے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کا سبب بنتے ہیں۔جب اپنے سرزمین کے تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہی کردار یہاں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔1839میں خان محراب خان کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر انگریزوں کو دینے والے اپنے محل کے امراء تھے،اگر نورامینگل 1910 دشمن انگریز کے جال میں پھنستے ہیں تو انھیں پھنسانے والے بھی میر حبیب اللہ نوشیروانی ہی نکلتے ہیں جو دوست کی شکل میں سانپ بن جاتے ہیں۔1958 کے دھائی میں قدم رکھتے ہیں تو یہاں بھی بابونوروز خان کیلئے دشمن اسکے اپنے ہی خاندان سے دوداخان جیسے گدھ کااستعمال اور انتخاب کرتے ہیں۔الغرض جب بھی دشمن مرگ کے قریب پہنچا اسے اپنوں نے ہی آکسیجن دیکر زندہ رکھا اور اپنے ہیروز کو راستے سے ہٹوایا۔2000 کے بعد اٹھنے والے بلوچ تحریک میں بھی غداروں کا حال وہی ہے جو اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ہم اگر گہرائی سے مطالعہ کریں تو بالاچ مری شہید،غلام محمد بلوچ اور استاد اسلم جیسے بے شمار قومی سپوت ہم سے جدا کئے گئے ہیں۔ یہاں بھی دشمن نے ہماری ہی بازومیں سانپ پال کر جب بھی چاہا ہمیں ڈسوالیا ہے۔حالیہ پروم میں میجر نوراحمد عرف پیرک جان اور تین جانباوزوں نواز عرف گلاب،مالک،اور مومن کے شہادت کا معمہ بھی یہی کچھ بتا رہاہے کہ یہاں بھی وہی کردارگھس کر ایسے قومی سپوتوں کو راستے سے ہٹانے کا باعث بنیں ہیں، جن کا خلا شاید آسانی سے اتنی جلدی پر نہ ہوسکے۔لیکن ان خدشات اور مایوسیوں کا تالہ شہید پیرک جان کی جنگ دوران حوصلہ افزا آڈیوپیغام کھول جاتاہے کہ نہیں ہمیں اپنے آستین کے سانپوں سے نہیں گھبراناہے اور نہی یہ مایوس ہونا ہے کہ ہم بکھرے اس ریوڑ کی طرح ہیں جس کا چرواہا گھوڑے بیچ کر سویا ہواہے،بقول داکٹر اللہ نذر بلوچ بلوچ کی قیادت اور رہنمائی کیلئے لیڈر بلوچ ہی سے جنم لیگا۔یقیناََ پیرک جان آپ کے پیغام میں راز یہی ہے بلوچ قوم کی آزادی قریب ہے اس کا قیادت کرنے سلطان صلاح الدین ایوبی کرد، غازی سلیمان شاہ،ارتغل غازی اور غازی عثمان جیسے بے لوث قومی ہیرو،دوسری طرف صادق و جعفر،کردوغلو،سعدتین کوپیک،اور سلطان محمد (جو اقتدار چننے کی خوف سے اپنے ڈیڑھ سالہ بھائی کو تالب میں ڈبوکر مرواتے ہیں کہیں یہ
بڑاہوکر اقتدار پر قابض نہ ہوجائے)۔ جیسے کالے بھیڑیئے بھی یہیں سے جنم لیکر رسوائی سے دفن ہونگے۔مگر ایک شرط پر بلوچ قوم کو پھر سرجوڑ کر دشمن کے چال کو سمجھ کر اپنے بہترین سے بہترین نئی جنگی حکمت عملی اور موثر ترین جاسی نظام ازسر نو تریب دینا ہوگا تاکہ سعدتین کوپیک جیسے کردار تلوار تلے گردن خودرکھنے پر مجبور ہوں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here