جرمنی کی پارلیمان نے ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس کا مقصد تارکین وطن کو جرمنی پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
اس قانون سے یورپی یونین کے باہر سے جرمنی جانے کے خواہش مند تارکین وطن کے لیے آسانی پیدا ہو گی جس میں کینیڈا کی طرز کا پوائنٹس کا نظام متعارف کروایا جائے گا۔ اس نظام کے تحت عمر، مہارت، تعلیم اور جرمنی سے کسی قسم کے تعلق پر پوائنٹس دیے جائیں گے۔
تنخواہ، تعلیمی قابلیت اور جرمن زبان پر عبور کی شرائط میں بھی نرمی کی جائے گی۔
اس قانون کے بعد ایسے تارکین وطن کے لیے بھی جرمنی جانا آسان ہو گا جن کے پاس کسی نوکری کی پیشکش موجود نہیں ہے۔ جرمنی نے تارکین وطن کے لیے ملک کو پرکشش بنانے کے لیے انھیں اپنے ساتھ بیوی اور بچوں کے علاوہ والدین کو بھی لانے کی اجازت دے دی ہے۔
جرمنی کی پالیسی میں یہ ایک اہم اور نیا موڑ ہے۔ دہائیوں تک جرمنی میں برسراقتدار رہنے والی حکومتیں اس خیال کی مخالفت کرتی رہی ہیں کہ جرمنی تارکین وطن کی منزل ہو سکتا ہے۔
1960 کی دہائی میں جب ترکی سے ’مہمان مزدوروں‘ کی پہلی نسل جرمنی پہنچی تھی تو ان کو بالکل ایک مہمان سمجھا گیا تھا جو ’ملک کی معیشت کی مدد کریں گے اور پھر واپس چلے جائیں گے۔‘
قدامت پسند حکومتیں، جن میں انجیلا مرکل کی حکومت شامل تھی، جرمن معاشرے کے تنوع کے باوجود اس تصور سے دست وگریبان رہیں کہ تارکین وطن افراد کے لیے ان کے معاشرے میں جگہ موجود ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی کی ایک چوتھائی آبادی کسی اور ملک میں پیدا ہوئی یا ان کے والدین میں سے ایک کی پیدائش کسی اور ملک میں ہوئی۔
برسوں سے موجود مسئلے کے بعد اب جرمن رہنما ملک میں کام کرنے والوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد پر پریشان نظر آ رہے ہیں۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ ملک میں عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے کیوں کہ 1960 میں پیدا ہونے والی نسل اب جلد ہی ریٹائر ہو جائے گی۔
حکومتی وزرا نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں پہلے ہی لاکھوں آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اس وقت کام کرنے والوں کی کمی کو ملک کی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا چکا ہے۔