مسکراتا ہوا چہرہ جواب ہم میں نہیں رہا| راہم بلوچ

0
185

اس فانی دنیا میں روز ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان پیدا ہوجاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی لکھی ہوئی زندگی گزار کر چلا جاتا ہے۔ کچھ لوگ عیش وعشرت والی زندگی گزارتے ہیں اور کچھ لوگ غربت وافلاس والی زندگی بسر کرتے ہیں اور پھر اس دنیا سے جانے کے بعد کچھ ہی دنوں میں مٹی میں ملیا میٹ ہو کر ان کا نام ونشان تک مٹ جاتا ہے اور کھبی بھی کسی کی موضوع بحث نہیں بنے رہتے ہیں نہ ہی عام لوگوں کی اور نہ ہی تاریخ کی اوراک میں۔

لیکن کچھ لوگوں کے کام، جذبہ،صلاحیتیں اور کردار مورخ کی قلم کو مجبور کردیتے ہیں کہ انہیں تاریخی اوراک میں جگہ دیا جائے۔میں جس شخص کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں پتا نہیں کچھ لکھ پائوں گا یا نہیں ،میں نہ لکھاری ہو کہ اس کی شخصیت کو اپنے الفاظ کے ذریعے اجاگر کر سکو اور نہ ہی شاعر ہوں کہ اشعار سے اس کی کردار کو لوگوں کے سامنے لا سکو ۔ لیکن جس قبیل سے اس کا تعلق ہے وہ ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتے ہیں میری لفاظی کی محتاج نہیں ہےہیں ۔

وہ مسکراتے ہوئے چہرے کہ ساتھ ایک بامرد، باصلاحیت حوصلہ مَنْد اور بلند و بالا منزلوں کے مسافر تھا ۔ وہ اپنی وطن کی آجوئی کی آس اپنے دل میں لیئے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا چکا تھا ۔ وہ اپنے قوم کیلئے ایک نڈر ، بہادر ، نہ جھکنے والا جنگجو اور لیڈر تھا۔ لیکن اپنی ان صلاحیتوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ دشمن کے نشانے پر رہا اور انہوں نے ہمیشہ دشمن پر خوف طاری کردیا تھا ۔ دشمن اس کو ہر طرح کی چال میں پھنسانے کے حربے استعمال کرتا رہا کبھی سرنڈر کے نام پر مختلف مراعات و سہولیات دینے کی آفر کرتا تو کبھی اپنی بربریت پہ اتر تھا۔ خاندان سے جڑے لوگوں کو ٹارچر کرکے ان کو ڈرانے کی ناکام ہتھکنڈے استعمال کرتا ۔لیکن دشمن کو پتا نہیں تھا وہ مُلا ابراھیم تھا وہ بلوچ کاز سے جڑے ایک نڈر سرمچار تھا ، وہ بلوچ وطن کی آجوئی کی نظریہ سے لیس ایک بہادر بلوچ تھا۔ شائد قابض فوج ملا کی شخصیت سے ناواقف تھا ۔

ملا سب کچھ پس پشت ڈال کر اپنے کاز سے منسلک رہا۔ ابراھیم وطن کی آجوئی کی امید اپنی آنکھوں میںلیئے بھوک ،پیاس اور دشمن کے پیدا کردہ ہر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی منزل (آجوئی ) کے راستے پر بامرد مجاہد کی طرح ڈھٹا رہا اور کبھی مُڑ کر بزدلوں کی طرح پیچھے نہیں دیکھا۔

لیکن اب وہ مسکراتا ہوا چہرہ ہم میں نہ رہا۔ ملا آپ کی موت کے خبر نے آپ کے لوگوں کو توڑ کر رکھ دیا جب میں نے آپ کی موت کی خبر پڑھی تو پائوں کے نیچے سے زمین نکل گیا کبھی، سوچا نہیں تھا ملا آپ بھی ہمیں اسطرح چھوڑ کر چلے جائو گے۔ ملا آپ کی موت کی خبر دوستوں پر بجلی کی طرح گری اور سب کو اپنے آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کیا سن رہے ہیں ۔
ہاں ایک جگہ خوشی کی سماں تھی وہاں جہاں آپ کی خوف اور دہشت طاری تھا۔ وہاں جہاں اپ کے نام سنتے ہی ان کو ہوش اڑجایاکرتے تھے ۔ وہاں جہاں آپ کی نام سے ان کو موت واقع ہوجاتا۔

وہ آپ کو ہر طرح سے زیر کرنے کی کوشش کرتےرہے لیکن آپ ان کے پہنچ میں نہیں آئے۔وہ خاران شہر میں ہر بلوچ کو پکڑتے اور کہتے آساہ کہاں ہے؟ آپ کی تصوریںشائع کرکے آپ کی سر کی قیمت 40 لاکھ رکھ کر آپ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ کچھ نہ کرسکے۔ اورآپ کی خوف نے ان کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ تو اس دن ان کے ہاں جشن تھا ایسے جیسے ان کی سر سے موت ٹل چکی ہو لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ ابھی تک اس قوم کے جانثار اور آساہ کے ہمسفر اور بہت سارے ہیں اور وہ اس وقت تک ان کیلئے موت کا باعث بنیں گے جب تک مادر وطن کو ان قابض درندوں سے پاک نہیں کریں گے۔

لیکن ملاایک طرف درد تھا، غم تھا، قیامت تھا، کربلا جیسی سخت دن کا منظر تھا،سوگ کا سماں تھا، کچھ ہی دیر کیلئے نا امیدی تھی۔اور وہ تھے آپ کے ہم فکر ساتھی آپ کی قوم کی مائیں بہنیں۔ ملا مجھے اس بات کا غم نہیں کہ آپ کے بعد آپ کا بندوق کون اٹھائے مجھے پتا ہے آپ نے بہت سارے اپنے جیسے پیدا کیئے ہیں اور وہ آجوئی تک آپ کی بندوق اٹھائینگے لیکن مجھے درد اس بات کی ہے اب کبھی آپ کی مسکراتا ہوا چہر ے کادیدار نہیں ہوگا۔

ملاآپ سے ملے ہوئے نو سے دس سال ہوگئے تھے ہر وقت سوچتا تھا ایک دن ملا سے ملاقات ہوگی خوب گپ شپ ہوگی اور تم اپنی نرم لہجے سے پرانی یادوں کو تازہ کروگے کبھی تم آئوگے اور پہلے کی طرح ہم سب سے مل لو گے اور ہمیں اپنی جنگی کہانیاں سناؤگے اور قہقہوں سے مجلس کا مزہ دو بالا کرو گے ۔ ملا آپ نے ہمیں چھوڑ کر اچھا نہیں کیا اب ہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں کبھی سوچ بھی آپ کے بارے میں نہیں سکتے ہیں کہ آپ آؤگے۔

لیکن یہ بات بھی درست ہےآکہ پ زندہ ہو دلوں میں، زندہ ہو لوگوں کی سوچوں میں، زندہ ہو۔ ملاآپ اس دنیا سے چلے نہیں گئے۔ آپ امر ہوگئے ہمشہ کیلئے زندہ رہوگے ۔ رہتی دنیا تک ہم آپ کی بہادری، شجاعت اور دلیری کی قصے سناتے رہیںگے ،ہمارے بعد آنے والے نسلیں بھی آپ کی قربانیوں کو نہیں بھول پائیں گے ۔

رخصت اَف اوار اُن ملا


٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here