جہد مسلسل کی علامت، گوریلا سرمچار شہید سکندر عرف شئے | نوید اولیاء

ایڈمن
ایڈمن
11 Min Read

میں چاہتا ہوں کہ لکھوں، لکھنے کیلئے بہت موضاعات ہیں، لیکن کچھ ایسے کردار ہیں دل چاہتا ہے کہ ان کے متعلق کچھ لکھنے کی کوشش کروں، ان کرداروں میں سے ایسے کردار جنہوں نے اپنے گھر بار، ماں باپ، بھائی سمیت زندگی کی تمام خواہشات کو دفن کرکے اپنی قوم اور مادر وطن کیلئے زندگی کا نظرانہ پیش کئے ہیں اور ہمیشہ انہوں نے اپنی زمین اور آنے والے نسل کیلئے سوچ اور غور و فکر کیا ہے۔

آج کا دن شہید وطن سنگت سکندر جان کا پہلا برسی ہے، جس نے 1 اپریل 2022 کو مزن بند کے سینے پر دشمن فوج کے ساتھ دو بہ دو لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔ جس دن آپ شہید ہوئے، مجھے یہ بات ہر گز یقین نہیں تھا کہ اپ اتنی جلدی رخصیت کر جائینگے۔لیکن یہ قسمت کی بات ہے کہ ایک گھر سے روشن چراغ نے خود کو اپنی سرزمین کیلئے قربان کردیا اور مادر وطن نے آغوش پھیلا کر انہیں اپنے سینے میں جگہ دی۔ شہید نے جْوانمردی اور بہادری کے ساتھ دشمن ریاستی فوج کے سامنے سرخم تسلیم کرنے کے بجائے لڑنے کو ترجیح دی۔

تاریخ کے اوراق میں مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے سکندر اعظم کی جنگی داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے مختلف ممالک کے افواج سے جنگ لڑی، لیکن آج مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری اپنی قومی تاریخ میں سرزمین کی دفاع کیلئے جنگجو نوجْوان اپنے سروں کا نظرانہ پیش کرکے خود کو قربان کر رہے ہیں ان بہادر فرزندوں میں سے ایک شہید کپٹن سکندر عرف شئے مرید ہے۔

شہید سکندر 10اکتوبر 1992 میں شہید چیئرمین دوست محمد کے گھر میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم اور میٹرک گومازی کے ماڈل ہائی سکول سے پاس کی اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان تمپ سے پاس کی، لیکن معاشی تنگ دستی کی وجہ سے وہ مزید اپنی تعلیم کو جاری کر نہ سکا۔ویسے تو شہید سکندر کا گھر ایک سْیاسی ادارے کی مانند ہے، کیونکہ انکے خاندان کے بیشتر افراد سْیاست سے وابستہ ہیں۔ 2004 میں جب انقلاب سر اٹھاتی ہے تو ہمارے علاقے میں انکے اثرات پڑتے ہیں، اس وقت سکندر جان اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف تھا، شام کے وقت وہ اپنے زمینوں اور مال و مویشیوں کا دیکھ بال کرتا تھا، اسکول میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مدرسہ میں بھی دینی علوم حاصل کر رہا تھا، لیکن انٹر پاس ہونے کے بعد معاشی تنگی دستی کی وجہ سے انہوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ کر زمینوں پر کاشتکاری کرنے لگا۔ شہید کرکٹ کھیلنے کا بہت شوقین تھا، شام کے وقت وہ اپنے گاؤں کے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا، کبھی کبھی وہ ہمیں بھی گومازی میں کرکٹ کھیلنے کیلئے لے جاتا تھا، سکندر قوم پرستی کے جزبے سے سرشار تھا، انہیں اپنے گاؤں، پہاڑ وادیوں سے بہت پیار اور محبت تھی، ہم اکثر انکے ساتھ سیر کرنے کیلئے کجھور کے باغات اور پکنک منانے جایا کرتے تھے، انہیں پکنک اور شکار کرنے کا انتہائی شوق تھا۔

سکندر کے اندر بے شمار خوبْیاں تھی، وہ ایک مہمان نواز اور ایک مہربان دوست تھا، شہید سکندر کے والد صاحب شہید چیئرمین دوست محمد گھر کے قریب ایک مہمان خانہ تھی جو ہر وقت مہمانوں کیلئے کھلا رہتا تھا، جہاں ہر وقت شہید چیئرمین دوست کے دوست آیا کرتے تھے اور دیگر مہمانوں کی آمدورفت جاری تھا، جب بھی ہم گومازی جاتے تو وہاں مختلف لوگ ہمیں دکھنے کو ملتے تھے۔شہید طاہر بلوچ سکندر کے بھائیوں میں سب سے بڑا بھائی تھا، وہ اکثر مہمانوں کی دکھ بال کرتا تھا، طاہر کی عدم موجودگی پر مہمانوں کی دیکھ بال سکندر اور انکے دوسرے بھائیوں نے کیا کرتا تھا۔گھر میں شہید طاہر بلوچ کے ہاں بلوچی اور اردو کی مختلف کتابیں رکھے ہوئے تھے، بچپن سے سکندر کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، جہاں وہ ان کتابوں سے استفادہ حاصل کیا کرتا تھا، لیکن ان کو اپنی مادری زبان بلوچی کی کتابوں میں زیادہ لگن تھی، انکی کوشش تھی کہ میں بلوچی میں شاعری اور کہانیاں لکھوں، تھوڑا بہت شاعری بھی کیا کرتا تھا، اور ایک دو آرٹیکلز بھی انہوں نے تحریر کئے ہیں۔

سال2006 کو شہید نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد سکندر جان نے سْیاست میں قدم رکھی، اس وقت بلوچ سْیاست میں بی ایس او آزاد کا اہم کردار تھا، انہوں نے اپنے سْیاسی سفر کا آغاز بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کرتے ہوئے مختلف سْیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، علاقے میں ہونے والے مخلتف ہڑتال، احتجاج اور جلسوں میں شامل تھا۔2008 کو گومازی میں ڈپٹی یونٹ سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے، جب ریاست کی جانب بی ایس او آزاد پر کریک ڈاؤن شروع ہوئی تو انہوں نے گومازی سمیت مند اور دیگر مختلف علاقوں میں اپنے سْیاسی سرگرمیوں کو کامیاب حکمت عملی کے ساتھ جاری رکھا، وقت گزرنے کے ساتھ 2012 کے بعد جب سرفیس سْیاست کے تمام راستے بند ہوئے تو شہید سکندر بلوچ نے دشمن فوج کے ساتھ مسلح جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا، 2013 کو وہ باقاعدہ طور پر بی ایل ایف کے پلیٹ فارم پر شمولیت اختیار کرکے مسلح محاز میں شامل ہوئے۔

سکندر جان کو آزادی کی تحریک سے دستبردار کرنے کیلئے دشمن نے مخلتف حربے استعمال کئے، حتیٰ کے انکے والد چیرمین دوست محمد اور انکے بڑے بھائی طاہر کو شہید کر دیا، لیکن ان تمام ظلم اور دہشت کے باوجود وہ اپنے راستے سے دستبردار نہیں ہوا، اسکے بعد انکے چھوٹے بھائی کو تین چار مرتبہ اغواء کرکے ازیت گاہوں کی نزر کرکے انہیں شدید جسمانی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا تاکہ سکندر آکر ریاستی فوج کے سامنے سرنڈر کرے لیکن وہ ایک پختہ نظریہ، احساس غلامی اور قومی آزادی کے جزبے سے سرشار ایک پختہ گوریلا سرمچار تھا، دشمن کے تمام حربوں کو ناکام بنا دیا۔

سکندر ایک جزباتی اور مزاحیہ مزاج کا مالک تھا، لیکن وہ اپنی سرزمین، قوم اور جہد کے ساتھ بہت مخلص اور ایماندار تھا۔سال 2015 فروری کے ماہینے کو شہید سکندر جان کی شادی ہوئی، شادی کے بعد انہیں دو بیٹی اور ایکے بیٹے نصیب ہوئے، لیکن شادی کے بعد آرام وآسائش کی زندگی سے زیادہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں اور جہد کو ترجیح دیکر زمین کی پاسبانی کرتے رہے، کبھی کبھار وہ اپنے بچوں کو دیکھنے گھر آئے آتے۔شئے مرید نے مسلح محاز میں قدم رکھنے کے بعد بندوق اٹھا کر اپنے مادر وطن ہانی کی حفاظت کیلئے پہاڑوں اور بْیابانوں میں محو سفر ہوئے، اب ایک سال گزر گئے شئے مرید جان تمہاری جدائی مجھے ابھی تک یقین نہیں میں اس انتظار میں بیٹھا ہوں کہ کہیں تم ضرور واپس آؤ گے، میں اور آپ گفتگو کریں گے، موجودہ صورتحال کے بارے میں مجھ سے پوچھیں گے، میرے اور آپ کے درمیان انتہائی گہرے رشتے ہیں، خوبصورت یادیں ہیں۔

شئے جان ویسے تو میں ایک لکھاری نہیں ہو اور نہ ہی میں ایک شاعر ہوں، اگر میں ایک لکھاری ہوتا تو آپ کیلئے کئی کتابیں لکھ دیتا، میں آپ کے کن کن خوبیوں کو قلمبند کروں، تمہاری مہمان نوازی، بہادری، غیرت اور جرت کی داستانیں لکھوں، لیکن میری قلم میں یہ طاقت نہیں کہ میں مکمل طور پر جنگی داستانوں کو اور تمہاری شخصیت کو الفاظ میں بْیان کر سکوں۔ کیونکہ آپ مجھ سے بھی قریب تھے، آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ سرزمین کی حفاظت کیلئے جدوجہد کے متعلق گفتگو کرتے تھے۔ اگر یہ لوٹ کے واپس آنا ممکن ہوتا تو آپ واپس آجائے، کیونکہ مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنے ہیں۔

شئے جان میں وہ خوبصورت لمحوں کو کبھی نہیں بھولتا جن لمحوں میں نے آپ کے ساتھ گپ شپ لگائے، مزاق اور مسکرے کئے۔لیکن! جب سے تم کوچ کر گئے ہیں، دیوان اور مجالس بے لزت ہیں، جب مجھے تیری یادیں آتے ہیں تو دل شیشے کی طرح ٹوٹ کر زرہ زرہ ہوتا ہے، تم ایک ایسے خوش مزاج انسان تھے اور سرزمین کی پیار اور محبت نے تم کو اسطرح پیار بنایا کہ لوگ آپ کے دیکھنے کو ترس رہے تھے، تمہاری پیار اور محبت کے پھول کی خوشبو سرزمین کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی، اور ہر شخص تجھ سے آشنا ہے، شئے! میں تمہیں ایک بات بتاؤں جب سے آپ مادر وطن کی گود میں ہو، تمہارے سنگر (مورچہ) کو ساتھیوں نے سمبھال کر تمہاری زمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہیں اور دشمن کے سامنے مضبوط چٹان کی مانند کی طرح کھڑے ہیں، آپ کے خواب کو ضرور پورا کریں گے، اور کارروان کو منزل مقصود تک پہنچائیں گے، سرزمین ایک نہ ایک دن آزاد ہوگا اور میرا ایمان ہے کہ تمہارے لہو رنگ لائیں گے۔
بلوچ اور بلوچستان زندہ باد


٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment