ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی نے حال ہی میں حکومت مخالف مظاہروں میں گرفتار کیے گئے افراد سمیت ملک کی جیلوں میں قید ہزاروں افراد کو عام معافی دینے کا اعلان کردیا۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق آیت اللہ خامنائی کی جانب سے دی گئی اس عام معافی کا اطلاق ایران میں دوہری شہریت کے حامل قیدیوں پر نہیں ہو گا۔
سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق زمین پر کرپشن میں ملوث افراد پر بھی اس معافی کا اطلاق نہیں ہو گا جہاں اس جرم میں ملوث چار افراد کو حال ہی میں سزائے موت بھی دی جا چکی ہے۔
اس کے علاوہ غیرملکی خفیہ ایجنسیوں یا ایران کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے عناصر کے لیے کام کرنے والوں پر بھی اس معافی کا اطلاق نہیں ہو گا۔
ستمبر میں پولیس کے ہاتھوں دوران حراست کُرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایران میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جہاں ان مظاہروں میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور یہ ایران کی حکومت کے بعد 1979 کے انقلاب کے بعد سب سے بڑا چیلنج بن گئے تھے۔
مقامی سماجی تنظیم کے مطابق اس دوران احتجاج اور مظاہروں میں شرکت اور اس سے تعلق کے الزام میں ملک بھر سے 20ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا جن کو حکام نے ایران کو بھڑکانے والے غیرملکی دشمن قرار دیا۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس دوران احتجاج میں 70 بچوں سمیت 500 سے زائد افراد مارے گئے جبکہ چار افراد کو سزائے موت دی گئی۔
البتہ مظاہروں سے تعلق کے شبے میں چند افراد کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے اس احتجاج کی شدت میں نمایاں کمی آئی ہے۔