دی لیجنڈ… شہید ڈاکٹر منان بلوچ |ایم بلوچ

0
506

دنیا بہت ہی بڑی ہے اور اسکی داستان بھی اسکی طرح بے تے تحاشا بڑی جس میں روز ازل سے لیکر اج تک ہر کوئی اپنے بقا کی خاطر اپنے طریقہ کار استعمال کرکے اپنے حق کی خاطر جنگ لڑ رہی ہے چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ جب انسان وجود میں آیا تو اسی دن سے اپنے لئے لڑ رہا ہے کبھی خود سے کبھی قدرت سے کبھی کسی اور سے ۔اسکے بعد دنیا میں طاقت کی خاطر ہر کوئی کسی کا قتل کرتا، اپنے لئے جائیداد بناتا اُسی وقت مظلوم بھی تھے جو اپنے بقا کی خاطر اپنے قوم کے خاطر جنگیں لڑی اس استحصالی نظام کے خلاف ۔ بڑے بڑے امپائیرز وجود میں آئیں اور ٹوٹتے گئے۔ جب ریاستوں کا قیام سامنے آیا تو لوگ اپنی خاطر اپنے ریاست کے لئے لڑے، گِرے اٹھے اور مرے اِسی طرح انہوں نے اپنے وطن کی خاطر ہر ممکن کوششیں کی کبھی کامیاب ہوئے کبھی ناکامیاب مگر اپنی سرزمیں کو بچانے کے لئے آخر میں اپنی جان کے نذرانہ سے بڑھ کر کوئی اور قربانی ان کے لئے نہیں بچھی تو جان بھی قربان کردی ۔ایسی ھمیں بہت سی مثالیں ملیں گے جنھون نے اپنےقوم کے لئےآخری ایام بھی قربان کئے اور سُرخ رو ہو گئے ۔اس دنیا میں دو سو سے زیادہ ممالک موجود ہیں جو آزاد ہیں مگر ان میں سینکڑوں ایسی قومیں موجود ہیں جو اپنے لئے آزادی کی جنگ لڑھ رہے ہیں لیکن ہمارا موضوں ہم تک اور ایک رہنما تک محدود ہے جس سرزمیں کا نام بلوچستاں ہے اور اسکا ایک باسی کا نام تھا شہید ڈاکٹر منان۔


شہید ڈاکٹر منان مشکے کے چھوٹے سے گاوں نوکجو میں مولوی اللہ بخش کے گھر3-9-1969 میں پیدا ہوئےوہ کم عمری میں اپنی والدہ کی پیار سے محروم رہا جب وہ بہت چھوٹا تھا اسکی والدہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔اس کے بعد ڈاکٹرمنان اپنے چاچا کے گھر گجر میں رہا ۔ وہ جب 6/7سال کا ہوا تو اپنے والد کے پاس واپس نوکجو گیا اور اپنی ابتدائی تعلیم نوکجو سے شروع کی پرائمری تعلیم وہ نوکجو سے حاصل کرنے کے بعد پھر وہ گجر کا رُوخ کیا ۔ھائی اسکول مشکے گجر سے میٹرک پاس کرنے کے بعد تُربَت کا روخ کیا عطا شاد ڈگری کالج سے ایف ایس سی پاس کرلیا ۔تعلیم کو اگے بڑھانے کے لئے کسی سہارے کی ضروت تھی تو اپنی تعلیم کو مزید اگے لے جانے سرکاری نوکری کا سہارا ملا جو پڑھنے اور پڑھانے کا کام تھا ۔اپ نے اسکول کی استاد کی حثیت سے جھاؤ میں بچوں کو پڑھانا شروع کیا اور اسکے ساتھ ساتھ ڈاکٹری کے لئے بھی تیاری کی اس میں بھی بازی جیت گئے ۔تو آپکو نوکری چھوڑنا پڑھا ۔اور ایم بی بی ایس
مکمل کرنے کے بعد آپ ڈاکٹر کے حیثیت سے مختلف جگہوں پہ اپنا فرض اچھے طریقہ سے نبائے اپ کسی ایک مخصوص شہر میں نہیں رہے پیسے بٹورنے کا اپ کو شوق نہیں تھا ہر کوئی ڈاکٹر بنتا ہےکہ میں اگے اچھے طریقہ سے پیسے کما سکوں مگر آپ ان میں سے نہیں تھے آپ صرف اپنا فرض خدمت بلوچ گزار رہے۔ آپ ان لوگوں سے بھی نہیں تھے جو کالونئزر کی پروپکنٹوں کا شکار ہوتے ہیں اپنے آپکو سب سے اعلی تر سمجھتے ہیں مغروری کی زندگی گزارتے ہیں آپ ایک ہنس مُک شخص تھے ہر کسی سے گل مل جاتے تھے مردم شناس تھے بچوں سے پیار بڑوں کی عزت کرتے تھے ۔جہاں آپ کا پہلا نوکری تھا استاد کے حیثیت سے آپ نے پھر اسی جگہ کا رُوخ کیا ایک نئے کام سے جہاں بیماریوں کے علاج کرنے کا ذمہ آپ کے سر تھا۔ آپ نے محسوس کیا یہ جو بیماریاں ہیں صرف جسم تک نہیں ایک اور بڑی بیماری ہے اپنے قوم کو اس بیماری سے بھی نکالنا ضروی ہے وہ بیماری غلامی ہے ۔اپ کبھی خضدار کبھی آواران کبھی مشکے کبھی نال گریشہ ایسے ہی آپ نے زندگی خدمت بلوچ کے لئے وقف کردی۔ اس وقت آپ سیاست میں بھی اپنا کردار نبا رہے تھے ہر مشکل وقت کا بخوبی اداراک رکھتے تھے۔


جب آپ پڑھ رہے تھے تو آپکو بہت سے دوست ملے لیکں دو دوست ایسے ملے جو رشتہ دار اور نظریاتی ہم فکر ہم خیال دوست بھی رہے اور ہیں ایک دوست ڈاکٹر دین محمد جو آپ کی زندگی میں ہی پاکستانی خفیہ اداروں نے اسے لے کر گئے جس کا تا حال کوئی پتہ نہیں جو دنیا کی مشکل تریں جنگ لڑھ رہا ہے ۔


دوسرا دوست(ڈاکٹراللہ نظر )جو پہاڑوں پہ خدمت قوم پہ مامور۔ وہ آپ کے ناہونے سے غمزدہ یے لیکن اس کے باوجود وہ ایک مکار دوشمن سے لڑھ رہے ہیں اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں وہ اپ سے کتنا پیار کرتا تھا کسی ایک جگہ پہ وہ لکھتا ہے “منان جان کے لئے بے حد پیار اور احترام۔ ہمارا مقصد ان کے نقش قدم پر چلنا ہے، یا تو شہید ہونا یا آزاد ہونا ہے” آپ نے اپنی زندگی میں بہت ہی اچھے اچھے دوست کمائے ہیں اور دوشمن بھی۔ جو ایک قوم کے لئے سوچتا ہے اسے دشمنوں کے بارے میں زیادہ فکر نہیں ہوتی آپ کے جانے سے بلوچ قوم میں ایک سوگوار ماحول پیدا ہوا چھوٹے بڑے بوڑے نوجْوان سب غم کی آگ میں میں جُلس گئے ۔آپ 45 سالوں کی اس تویل جنگ میں نہ جانے کیا کیا دیکھے ہونگے سہے ہونگے لڑھے ہونگے لیکن جھکے نہیں30جنوری 2016 رات کے اس وقت جب گولی آئی آپ کے سر کو پار کیا اس وقت تک جھکے نہیں ۔آپکی مسلسل اس جدوجھد نے بلوچ قوم میں مایوسی کی نہیں بلکہ ایک امید کی کرن دکھائی ہے اور آپکی راہ میں ہزاروں نوجْوان عالم فلسفی ڈاکٹر سب شامل ہوئے ہیں ۔


سْیاسی کیرئیر


اپنے سْیاسی کیرئیر کی شروعات کسی ایسی تنظیم سے کی جس کا آخر میں اپ بلکل متضاد رہے کیونکہ اپ نے اپنے سْیاست کی شروعات جمعیت سے شروع کی جو مذہبی تنظیم ہے جب آپ نے محسوس کیا کہ میں اس تنظیم کے لئے بنا نہیں آپ نے بی این ایم میں شمولیت کی آپ اس بات سے باخبر ہوئے کہ بلوچ کا مستقبل کسی مذہبی تنظیم یا پارٹی سے وابستہ نہیں بلوچستان کا ایک ہی حل ہے وہ ہے نشنلزم اور اسکے لئے قومی پارٹیاں موجود ہیں جو ایک سیکولر سوچ رکھتے ہیں وہی نجات دلا سکتے ہیں ۔جب ڈاکٹر منان نے یہ احساس کیا تو وہ بی این ایم میں شامل ہوئے اپنا فرض ادا کرنے میں دن رات ایک کرنا شروع کیا ایک انقلابی کے لئے ہمیشہ راستے خوشگوار نہیں ہوتے چائے وہ کسی بھی طرح ہو انقلابی جدوجھد میں صرف دشمن ہی نہیں کھبی کبھی اپنے ہی مایوسی کے سبب بنتے ہیں اپنے بھی دشمن کے روپ دھار کر سامنے آتے ہیں مگر جو ان باتوں سے باخبر ہوں ان کے لئے ان سے لڑنا آسان سی بات ہوگی اور وہ اپنے فرض کو زیادہ ترجع دیتے ہیں منزل ہی اصل مقصد ہوتا ہے ان کے لئے کسی عیش و عشرت کی زندگی کوئی معنی خیز نہیں جمہوری پارٹیوں میں اکثریت ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کیاکرنا چاہیے وہی ہوتا ہے ۔


2008 کے کونسل سیشیں سے پہلے ڈاکٹرمنان سنٹر کمیٹی میں شامل ہوئے اپنےپارٹی کو منظم کرنے میں کلیدی کرادر ادا کئے 2008میں شھید ڈاکٹر منان کونسل سیش میں بطور مرکزی چیئرمین کی حیثیت سے کھڑے رہے چیرمیں غلام محمد کے خلاف لیکن کامیاب نہیں ہوئے اس وقت بہت سےمی غلط فہمیاں جنم لے لیے مگر انقلابیوں کے لئے یہ عام سی باتیں ہوتی ہیں اور انقلاب میں جیت ہار کوئی معنی نہیں رکھتا صرف قوم کی خدمت قوم کو صحیح راستہ دیکھانا اصل مقصد ہے ۔ڈاکٹر منان چیئرمین غلام محمد کو اپنا چیئرمین مان کر ایک سْیاسی سنگت کی حیثیت سے گپ شپ کی تو لوگوں کی غلط فہیمیاں دور ہونے لگے ۔انقلابی کسی عہدے کے محتاج نہیں ہوتےانہیں صرف اور صرف قوم کی فکر ستاتی ہے اور کام کرنے پہ مجبور کردیتی ہے ڈاکٹر اپنی پارٹی کے کاموں میں مصروف عمل رہے جب چیئرمین کی شہادت ہوئی تو پارٹی کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑھا جس کی جگہ کوئی پُر نہیں کرسکتا ہے مگر پارٹیوں میں وہ صلاحیت ہوتی ہے جو اپنے آپکو مضبوط کرسکےجب 2010میں کونسل سیشن ہوا اس بار ڈاکٹر منان نے مرکزی سیکٹری جنرل کی حیثیت سےفام جمح کیا اور منتخب ہوئے ۔چیئرمیں خلیل بلوچ منتخب ہوئے پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی مگر پاکستان جیسے مکار ظالم دشمن نے بلوچستان کی حالت کو خراب کرنے میں شدت اختیار کی اس وقت ایک خوف ہراس کے ماحول پورے بلوچستان میں چایاہوا تھا سْیاسی نوجونوں اور پارٹی ورکروں کو بھی چُن چُن کر اغوا کرکے شھید کرنا شدت اختیار کرچکا تھا سْیاست کو ناممکن بنانے کی بھر پورکوشش کی گئی مگر ڈاکٹر صاحب کسی ایک جگہ پہ کبھی نہ ٹھرے اس لئے نہیں کہ خوفزدہ تھا اس لئے کہ بلوچستان میں جو خوف و ڈرتھا اس کو ختم کرنے کے لئے پارٹی میٹینگ جلسہ جُلوس اور گھر گھر جاکر تربیت دینا شروع کیا جیسے وہ کسی تبلیغی جماعت میں ہو مگر تبلیغی جماعت اور اس میں بہت بڑا فرق تھا تبلیغی جماعت زیادہ ڈراتے ہیں مگر ڈاکٹر منان ڈر کو ختم کرنے بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو مضبوط کرنے نکلے تھے ۔


2012 میں بی یس او آزاد کا کونسل سیشن ہوا جس میں زاہد جان جیسے رہنما سامنے آیا وہ بھی ڈاکٹر کی طرح بے آرام تھا بہت ہی عمدہ لیڈر دونوں تنظیم اور پارٹی کے سینکڑوں دوست اغوا ہوئے اور ان کی ،تشدودزدہ لاشیں ملی تھی مگر رہنماوں نے سر جُھکانے کی بجائے اپنی تنظیم پارٹی اور قوم کی خاطر دن رات چیں سے نہیں بیھٹے جب چیئرمین زاھد جان کو 18 مارچ 2013 کو غوا کیا تو ڈاکٹر کو بہت افسوس ہوا ہمیشہ وہ اس بات کا ذکرکرتے رہتے کہ زاھد جان جیسے لیڈر بہت ہی کم ملتے ہیں جواسٹیٹ فارورڈ ہو پاکستان کے لئے ہو یا اپنے قومی تحریک کے لئے ہو ہمیشہ وہ حق اور سچ کہا کرتا تھا پارٹیوں کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا تھا افسوس ہے لیکن ازادی کی جنگ میں بہت سے باکمال لوگوں سے ہم دور ہوسکتے ہیں ہم پہلے سے جانتے ہیں ایسے سینکڑوں واقعات ہونگے۔


ڈاکٹر منان چھوٹے قد کا مالک ہونے کے باوجود کبھی تُربَت، مَنْد ،جھاؤ، دَشْت ،گْوادر، مشکے ،قلات ،خاران بلوچستان کے ہراس جگہ اپنے قدم جمائے ہیں جہاں بلوچ فرزند رہا کرتاہے ایک ٹانگ سے معزوری کو کبھی قومی فرض میں رکاوٹ بننے نہیں دیا ثابت قدم رہا پارٹی نے اپنا 2014 میں کونسل سیشن منقد کیا تو ڈاکٹر منان ایک بار پھر سکٹری جنرل منتخب ہوئے اور خلیل بلوچ چیئرمین رہا۔


لیکن کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ہم اگلے دو سالوں میں ایک چہرے کو کھو رہے ہیں ایک استاد،شفیق دوست سے محروم ہونگے ۔پارٹی کو جن مشکلات کا سامنا تھا اب ان کو ختم کرنے کا جذبہ لےکر اپنا سفر جاری رکھا 13 اور 14 میں غلط فیمیاں اپنے جڑیں مضبوط کر چکے تھے کردار کُشی کی ایک لہر بہت سے لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لے چکا تھا جس کی وجہ سے زاھد جان کوئیٹہ جا کر ان مسلوں کو سلجانے گیا اور اغوا ہوا اسی دوران منان جان نے جو عہد کیا تھا اب ان کو پورا کرنا تھا اس بار سفر کا روخ مَکُّران کے بجائے سراوان کی طرف تھا سْیاسی سفر میں ان پہ بہت سے آپریشنز ہوئے پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ ڈاکٹر منان کو اس راستے سے ہٹائے مگر انقلابی کے لئے خوف وجود نہیں رکھتا ہر قدم میں خطرہ ہے جو ڈرتے ہیں وہ اسے سفر کا مسافر ہی نہیں ہو سکتے مَکُّران میں آپریشنز ہوئے۔ ایک جلسے کے دوران ملا عمر کے لوگوں نے حملہ کر دیا مگر ڈاکٹر منان سلامت رہے شیھد ہونے سے پہلے جب وہ خاران میں تھا تو اس پہ آپریشن ہوئےاس آپریشن میں بال بال بچ گیا مگر جو خدمت ءِ بلوچ لے کر نکلا ہو اسے کیا گولی بارود سے ڈرنا وہ جب اپنا پہلا نعرہ بلند کیا تھا اس وقت اپنے آپکو سرزمیں بلوچستان کے لئے فدا کرچکا تھا وہ اسی دن سوچ بن رہا تھا بہت ہی کم رہنما ایسے ہوتے ہیں جو مطالعہ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔


جب آپ کسی عہدے میں نافذ ہوتے ہیں آپکے کام حد سے بڑھ جاتے ہیں سکون ہی نہیں ملتا مگر پھر بھی جس وقت جہاں توڑا سا وقت ملے کتاب کوکھول دینا محبت ہے عشق ہے ۔ایک عاشق کا کام اپنے معشوق کے خاطر اپنا وقت سکون زندگی وقف کرنا ہے ڈاکٹر ان عاشقوں میں سے ایک عاشق تھا ۔مست توکلی ،جو صمو کے لئے ،شیریں فرھاد کےلئے سّسّی پنوں کے لئے ،لیکن تم مختلف تھے تمارا معشوق سرزمیں بلوچستان تھا اور سرزمین کو جاننے اور بچانے کے لئے کتابوں کا مطالعہ عبادت ہے اور عبادت سے آپ کبھی بھی دست برادار نہ ہوئے۔
2015 کو خاران سے نکل کر آپ نے آگے جانے کا فیصلہ کیا جو آپکے زمہ میں تھا ۔پارٹی فیصلہ اصل فیصلہ ہے تنظیمی فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوچہ پہاڑ سرد گرم مشکل سب کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور آخر کار سْیاسی سفر کا اختتام ہوا آپ امر ہوئے سرزمیں کے لئے۔ جس بیج کو اپ نے بویا تھا آج وہ پھول بن چکا ہے خوشبو دے رہا ہے پورے بلوچستان کو ۔

***

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here