بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں پاکستانی فوج نے اپنے حق میں ایک ریلی نکالی۔
یہ ریلی پاکستان فوج نے حق دو تحریک کے زیر اہتمام نکالی ہے۔
ریلی کی قیادت حق دو تحریک کوئٹہ کے چیئرمین بشیر خان باکسر کررہے تھے۔
ریلی کے شرکائنے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر دشمنوں کی جانب سے فوج کیخلاف منفی پروپیگنڈا کی مذمت کی گئی۔
ریلی کے شرکاء مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب پہنچے۔
پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حق دو تحریک کوئٹہ کے چیئرمین بشیر خان باکسر نے کہا کہ پاکستان دشمن اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے فوج کیخلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں، جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے۔
ان کاکہنا تھا کہ فوج کے جوان سرحدوں پر سردی، گرمی اپنی ڈیوٹی دیکر وطن عزیر کی حفاظت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہپاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کیلئے قوم متحد اور منظم ہے اور اس طرح کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ عوام ملک دشمن عناصر کو پہچان لیں جو فوج کے ادارے کو متنازعہ بنا کر ملک دشمنوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں ان کی سازش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
واضع رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے پاکستانی فوج جہاں بھی اپنے ظلم و ستم اور زیادتیوں کی وجہ سے عوامی سطح پر حد سے زیادہ بدنا م اور اس کی مورال گرنے لگتی ہے تو وہ اپنے ٹائٹوں کو اس طرح کی ریلی کے انعقاد کا حکم دیتے ہیں۔
بلوچستان میں جہاں فوجی آپریشن کے نام پرفوج روز مرہ فوجی جارحیت، قتل غارت،جبری گمشدگیاں،گھروں کو نذرتش کرنے، لوگوں کو علاقہ بدر کرنے، کاروبار اور زمینوں پر قبضہ کر نیجیسے غیر انسانی و سماجی برائیوں میں ملوث ہے وہاں عوامی سطح پر فوج کیخلاف اکافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے فوج وقفے وقفے سے اپنے حق میں اس طرح کی پلانٹڈریلی نکال کر رائے عامہ کو متزلزل کرتا رہتا ہے اوراپنے گرتے مورال کو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہتاہے۔
حق دو تحریک بلوچستان کے قائد اور جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان ہیں جو گذشتہ ڈیڑھ مہینوں سے پاکستانی فوج اور سیکورٹی اداروں کے خلاف گوادر میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو بیازیاب کیا جائے،فورسز کی چیک ہوسٹیں ہٹا دیئے جائیں،اسٹیبلشمنٹ کے آشیرواد سے سمندر میں جاری غیر قانونی فشنگ کو ختم کیا جائے۔
آزادی پسند بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے مولانا ہدا یت الرحمان کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہناتھا کہ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کی جانب سے بلوچوں کو مسلح جدوجہد سے دور رہنے کی تلقین پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کے بارے میں بلوچ قوم پرستوں کے خدشات وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہورہے ہیں کہ یہ جماعت پاکستانی فوج کی بی ٹیم ہے اور بلوچستان میں بنگلہ دیش والی تاریخ دہرانا چاہتی ہے۔ اب اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ یہ قوتیں پاکستانی فوج کی پالی ہوئی ہیں اور وہ انہی کے کہنے پر اپنا بیانیہ بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے سب سے بھیانک کردار جماعت اسلامی نے ادا کیا تھا۔ جب بلوچستان کے سیکولر معاشرے میں جماعت اسلامی جڑ نہیں پکڑ سکی تو مولانا ہدایت الرحمن کو بلوچ لبادہ اوڑھا کر حق دو تحریک کے سیکولر روپ میں بطور مسیحا پیش کیا گیا تاکہ سادہ لوح بلوچ کے دل میں جماعت اسلامی کے لئے بالواسطہ جگہ بنائی جائے۔ یوں ہدایت الرحمن کو میدان میں اتارا گیا۔ چونکہ وہ ایک سیکولر انداز میں بلوچ کا درد بیان کر رہا تھا تو بہت سے حلقوں نے اس پر اعتبار کیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیکولر بلوچ نعرے پس پشت چلے گئے اور جماعت اسلامی کا مذہبی انتہا پسندانہ اور عسکری بیانیہ سامنے آگیا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان سرعام بلوچ نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں مسلح جدوجہد کسی مسئلے کا حل نہیں، نوجوان اس سے دور رہیں۔ ہم اسے یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ جدوجہد سڑک اور نالیوں کی صفائی کیلئے نہیں بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کیلئے ہو رہی ہے جس کیلئے بلوچ قوم کے ہزاروں فرزندوں نے قربانی دی ہے۔ یہ جماعت اسلامی یا دوسری پارلیمانی جماعتوں کی طرح مراعات یا بلدیاتی نظام میں سڑکوں کی صفائی کیلئے جانوں کا نذرانہ نہیں پیش کر رہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ کچھ بلوچ ”حق دو بلوچستان“ کے نام پر مولانا کے ساتھ ہیں لیکن اسے وہ اپنی اختیار اور حق تصور کرکے بلوچوں کو بندوق اُٹھانے اور مسلح جدوجہد سے دور رہنے کا سبق دینے سے پرہیز کریں۔ یہ بلوچوں کا بنیادی اور انسانی حق ہے کہ وہ اپنی آزادی کیلئے کسی بھی قسم کی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔
بلوچ رہنما نے کہا کہ جماعت اسلامی کے بارے میں بلوچ کسی غلط فہمی کا شکار نہیں لیکن اس قدر جلدی جماعت اسلامی بلوچ کے مدمقابل آئے گا یہ ہمیں توقع نہیں تھا۔ اچھا ہوا کہ جماعت اسلامی بے صبری کا شکار ہوا۔ اب مزید بلوچ ان کے دام میں پھنسنے سے محفوظ رہیں گے۔ یہ لوگ ”الشمس“ اور ”البدر“ کی پیداوار ہیں۔ مولانا مودودی سے لیکر سراج الحق تک، سب ریاست کے پیدا کردہ پُرزے ہیں۔ ریاست انہیں ضرورت کے مطابق استعمال کرتی رہتی ہے۔ جس طرح ضیاالحق نے انہیں استعمال کیا، اسی طرح بعد میں مختلف اوقات میں مختلف حکومتوں نے انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کی ہے۔ بلوچ قوم کو ان کی دوغلی پالیسیوں کا ادراک ہونا چاہیئے۔ ان کااصل چہرہ لوگوں کے سامنے آشکار کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔